پاکستان، اربوں نوری سال دور کہکشاں کی تصویر
12 مارچ 2023پاکستان میں خلائی اور فلکیاتی تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ عام افراد اس امر سے واقف نہیں ہیں کہ بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں ملک کی ایک بڑی خلائی رصد گاہ موجود ہے جسے ''تقویٰ سپیس آبزرویٹری‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ اس رصد گاہ میں مسلسل سترہ گھنٹے کام کرتے ہوئے نوجوان ماہر فلکیات شہیر نیازی نے گیارہ ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ایک کہکشاں کی تصاویر بنائی ہیں۔
ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ مشن میں اہم کردار ادا کرنے والی نوجوان سائنسدان ڈاکٹر منزہ عالم
پاکستانی طلباء کا کارنامہ، چودہ ممکنہ سیارچے دریافت کر لیے
یہ تصاویرخاص کیوں ہیں؟
شہیر نیازی لاہور سے تعلق رکھنے والے انتہائی باصلاحیت نوجوان ہیں جو اس سے پہلے صرف سولہ برس کی عمر میں اپنی تحقیق کے باعث عالمی خبروں کا مرکز بن چکے ہیں۔ شہیر نے ڈی ڈبلیو سے اپنے حالیہ کارنامے پر خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے فروری میں لسبیلہ میں واقع تقویٰ سپیس آبزرویٹری میں سولہ انچ قطر کی دوربین سے دور دراز کی ایک کہکشاں کی کچھ نادر تصاویر کھینچی ہیں۔
ان خلائی اجسام کو ''چیشائر کیٹ گروپ‘‘ بھی کہا جاتا ہےجو تصاویر میں ایک ''آرک‘‘ یا قوس کی صورت میں نظر آرہے ہیں۔ ان میں قریب ترین قوس دس ارب نوری سال اور بعید ترین11.3 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔
شہیر کے مطابق آرک یا قوس کی صورت میں نظر آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اور اس سسٹم کے درمیان کئی دیگر دیو ہیکل کہکشائیں موجود ہیں جن کی کشش ثقل کی وجہ سے پیچھے موجود چیشائر کیٹ گروپ کی روشنی مڑ رہی ہے۔ اس امر کو فلکیاتی اصطلاح میں ''گریوی ٹیشنل لینزنگ‘‘ کہا جاتا ہے جس کی پیشن گوئی آئن سٹائن نے سو سال پہلے کی تھی۔
چیشائر کیٹ گروپ کیا ہے؟
شہیر نیازی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ چیشائر کیٹ گروپ ہم سے بہت زیادہ فاصلے پر واقع گریوی ٹیشنل لینز سسٹم ہے جو رات کے وقت آسمان پر محض 23 آرک سیکنڈ بناتا ہے۔ اس کے مقابلے میں زمین کا چاند 1870 آرک سیکنڈ یا نصف ڈگری بناتا ہے۔ واضح رہے کہ فلکیات میں آرک سیکنڈ دائروی زاویےکی پیمائش کی اکائی ہے اور ایک ڈگری میں 3600 آرک سیکنڈ ہوتے ہیں۔
شہیر بتاتے ہیں کہ اس طرح کی تصویر کھینچنا اتنا مشکل ہے کہ دنیا بھر میں اب تک صرف پانچ ماہرینِ فلکیات ہی چھوٹی دوربین سے یہ تصویر بنا سکے ہیں۔ بہت زیادہ فاصلے اور کائنات کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہر ایک منٹ میں اس کہکشاں سے خارج ہونے والی روشنی کے محض دو فوٹانز ہی ہم تک پہنچتے ہیں۔ لہذا ایسی تصویر بنانے کے لیے بہت زیادہ محتاط پروسیسنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
شہیر کے مطابق عموماﹰ اس طرح کی تصاویر بنانے کے لیے ہبل یا جیمز ویب خلائی دوربینوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے ایک تشریح شدہ تصویر بھی جاری کی ہے جس میںہبل خلائی دوربینسے کھنچی گریوی ٹیشنل لینزنگ کی تصویر کے ساتھ مکمل فیلڈ آف ویو کا مواز نہ کیا گیا ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ فیلڈ آف ویو میں ستاروں سے کہیں زیادہ تعداد کہکشاؤں کی ہے۔
تقویٰ خلائی رصد گاہ
شہیر نیازی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں واقع تقویٰ خلائی رصد گاہ ملک کی پہلی اور اکلوتی ''ڈارک سکائی آبزرویٹری‘‘ ہے۔ یہ شہر کی روشنیوں سے دور ایک ایسے مقام پر بنائی گئی ہے جو فلکیاتی مشاہدات کے لیے موزوں ترین ہےاور یہاں فضائی آلودگی انڈیکس بھی بہت کم ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے بزنس مین اور ایسٹرونامر طاہر شیخ نے اپنی ٹیم کے ساتھ یہ خلائی رصد گاہ قائم کی ہے۔
شہیر بتاتے ہیں کہ اس رصد گاہ کی سولہ انچ اپرچر کی دوربین سے انہوں نے گیارہ ارب نوری سال پہلے کا منظر نامہ پیش کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ہماری کائنات کی عمر محض تین ارب نوری سال تھی، بالفاظِ دیگر کائنات اس وقت اپنے بچپنے میں تھی۔ اس بڑی کامیابی میں تقویٰ آبزرویٹری کی ٹیم کا تعاون ہر لمحے شہیر کے ساتھ شامل رہا جس پر وہ پوری ٹیم کے شکر گزار ہیں۔
شہیر نیازی کون ہیں؟
شہیر نیازی فی الوقت انسٹی ٹیوٹ آف سپیس سائنسز اسلام آباد میں بی ایس کے طالب علم ہیں۔ انہیں 2018 میں ان کی غیر معمولی کارکردگی پر فوربس ایشیاء کی ''انڈر تھرٹی‘‘ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ 2016 میں محض سولہ برس کی عمر میں شہیر اس وقت عالمی خبروں کا مرکز بنے جب ہنی کومب میں آئنز کی حرکات سے متعلق ان کی تحقیق ''رائل اوپن سائنس جرنل‘‘ میں شائع ہوئی۔ شہیر نے روس میں منعقدہ ''ینگ انٹرنیشنل فزیسِسٹ ٹورنامنٹ 2016‘‘ میں شرکت کر کے اپنی تحقیق پیش کی۔ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والے وہ پہلے پاکستانی تھے۔
شہیر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ مستقبل میں تقویٰ آبزرویٹری میں بہ حیثیت ریسرچ سائنٹسٹ کام کر کے مزید چونکہ دینے والی تحقیقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔