1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لڑکیوں کی تعلیم پر عالمی کانفرنس، افغانستان غیر حاضر

11 جنوری 2025

پاکستان کے وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والی لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر دو روزہ عالمی کانفرنس میں پڑوسی ملک افغانستان کو مدعو کیا گیا تھا تاہم طالبان حکومت نے شرکت سے انکار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4p36U
ملالہ یوسفزئی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ’’عالمی وکیل‘‘ بن گئی ہیں
نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئیتصویر: Eric Gaillard/REUTERS

نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی اپنے آبائی وطن پاکستان میں آج سے شروع ہونے والی اسلامی دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئیں۔ ملالہ نے پاکستان آمد پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔

 یہ سربراہی اجلاس وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے میزبانی میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس عالمی سربراہی اجلاس میں مسلم اکثریتی ممالک کے تعلیمی رہنماؤں کو اکٹھا کیا گیا ہے لیکن پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی ہے۔

فرانس کا ایک کميونٹی سينٹر ملالہ یوسفزئی سے منسوب

 

ملالہ کی اسرائیل کی مذمت، غزہ کی حمایت کا اعادہ

کانفرنس میں میزبان ملک کے رہنماؤں کے افتتاحی کلمات

 مسلم ورلڈ کے تعاون سے منعقد ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا، ''پاکستان سمیت مسلم دنیا کو لڑکیوں کے لیے تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے میں اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔‘‘ شہباز شریف کا مزید کہنا تھا،''لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ان کی آواز اور ان کی پسند کے حق کو تلف کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ تعلیم سے محرومی لڑکیوں کے روشن مستقبل کے حق سے محرومی کا سبب ہوگی۔‘‘

پاکستان کے وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اسلام آباد حکومت نے ''افغانستان کو دعوت دی تھی لیکن افغان حکومت کی طرف سے کوئی بھی کانفرنس میں شامل نہیں ہو رہا ہے۔‘‘

افغان مہاجرین کے لیے یکم نومبر کی مہلت، ملالہ بھی بول پڑیں

افغان طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے سخت خلاف ہیں
افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی زندگی انتہائی محدود ہےتصویر: Sanaullah Seiam/AFP via Getty Images

ملالہ کی کانفرنس میں شرکت

ملالہ یوسف زئی، جنہیں 2012ء  میں پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں نے اس وقت گولی  کا نشانہ بنایا تھا جب وہ ایک اسکول کی طالبہ تھیں، ہفتے کو اپنے آبائی ملک پہنچ گئیں ہیں اور اتوار کو کانفرنس سے خطاب کرنے والی ہیں۔

 اپنے والدین کے ساتھ دارالحکومت اسلام آباد پہنچنے پر انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''پاکستان واپس آنا میرے لیے اعزاز ہے، میں حقیقی معنوں میں بہت خوش اور جزبات سے مغلوب ہوں۔‘‘

 اس سے قبل جمعہ کو، ملالہ  نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ  میں تحریر کیا کہ  وہ اس کانفرنس میں اس بارے میں کریں گی کہ ''کیوں طالبان کو افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جرائم کا مرتکب اور جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔‘‘

 2021ء  میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے، افغان طالبان کی حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم اور دیگر شعبوں میں ان کی شرکت پر قدغنیں لگائیں ہیں، جسے اقوام متحدہ نے ''صنفی عصبیت‘‘ یا '' جنسی امتیاز‘‘ قرار دیا ہے۔

جرمن شہر کولون میں افغان خواتین کا اپنے ملک میں لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کی پامالی کے خلاف بھوک ہڑتال
لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا اقوام متحدہ کے مطابق ’’صنفی عصبیت‘‘ ہےتصویر: Helay Asad/DW

پاکستان کا تعلیمی بحران

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو خود بھی شدید تعلیمی بحران کا سامنا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 26 ملین سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جو اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ملالہ نے دادو کے ٹینٹ سٹی میں اسکول قائم کر دیا

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا، ''تعلیم کا ناکافی بنیادی ڈھانچہ، حفاظتی خدشات کے ساتھ ساتھ  گہرے سماجی اصول لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔‘‘

 کلینکل سائیکالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والی 23 سالہ زہرہ طارق کا، جنہوں نے اسلام آباد میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق مذکورہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی، کہنا تھا، ''ہمارے پاس مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے یہ کم از کم ایک اچھا قدم ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو اب بھی مسائل کا سامنا ہے۔ بعض صورتوں میں تو خود لڑکیوں کے خاندان والے ہی پہلی رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘

طالبان’’لڑکیوں کی تعلیم کو سخت کفر سمجھتے ہیں‘‘
افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی ہےتصویر: BANARAS KHAN/AFP/Getty Images

ملالہ یوسفزئی کا نام ہر زبان پر کیوں؟

2012ء میں وادی سوات میں ایک اسکول بس پر پاکستانی طالبان  عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ملالہ یوسف زئی کا نام دنیا بھر میں جانا جانے لگا۔  یہ وہ  وقت تھا جب اس خطے میں عسکریت پسندی بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی کیونکہ افغانستان میں سرحد پار افغان طالبان اور نیٹو افواج کے درمیان جنگ جاری تھی۔

ملالہ کا طالبان حکمرانوں کے نام خط

خیال  رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان الگ الگ گروپ ہیں لیکن ان کے قریبی روابط اور ایک جیسے نظریات ہیں، جن میں ''لڑکیوں کی تعلیم کو سخت کفر سمجھنا‘‘ بھی شامل ہے۔

 ملالہ یوسف زئی کو اس حملے کے بعد پاکستان سے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا اور وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ''عالمی وکیل‘‘ بن گئیں اور 17 سال کی عمر میں انہیں نوبل امن انعام سے بھی نوازا گیا اور وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبل امن انعام یافتہ شخصیت بن گئیں۔

ک م/ا ب ا(اے ایف پی)