یہ زمین کی سگی اولاد ہیں اور ان کا علم بہت آرگینک ہے۔ پاکستان کی پچھتر سالہ معاشی، سیاسی، سماجی، ادبی، کاروباری یا مزاحمتی تاریخ کو سمجھنا ہو تو لیاری کی تاریخ پڑھ لینا کافی ہو گا۔ تاریخ کی درست سمت معلوم کرنی ہو تو پھر لیاری کو پڑھنا لازمی ہوگا۔
لیاری کی تاریخ کو غیر ملکی مصنفین نے بھی خاصی اہمیت دی ہے مگر زمین کی اصل کہانی تو وہی ہوتی ہے، جو زمین کی اولاد لکھتی ہے۔ سب نے کہانیاں لکھی ہیں، رمضان بلوچ نے لیاری کی ان کہی کہانی لکھی ہے۔
لیاری باشعور لوگوں کا بسایا ہوا چھوٹا سا ایک یونان تھا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ فیض احمد فیض کو جب دو کالجز میں سے کسی ایک کی پرنسپل شپ کی پیش کش ہوئی تو انہوں نے فورا سے پشتر لیاری کے عبداللہ ہارون کالج پر انگلی رکھی۔
لیاری فیض کا شکر گزار ہے مگر لیاری کو فیض کی کچھ ایسی ضرورت نہیں تھی۔ علم و دانش میں لیاری کے لوگ خود مختار تھے۔ صبا حسن دشتیاری جیسے دانشور اور اساتذہ انہیں ایک دستک پہ میسر تھے۔ فیض کی آمد سے بھی بہت پہلے لیاری کے عام سے لوگ باقاعدہ بینر لگا کر ''بچیوں کو گھر سے نکالو، سکول بھیجو‘‘ مہم چلا رہے تھے۔
آپا گل بی بی اور اور ملا جنت بی بی جیسی خواتین نادار بچیوں کو جدید تعلیم فراہم کر رہی تھیں۔ مخلوط نظام تعلیم ان کے لیے کوئی حیران کر دینے والا سوال نہیں تھا۔ لیاری کے ''بھائی لوگ‘‘ بھی آلتو فالتو پھرنے والے بچوں کی تعلیم کے لیے فکرمند ہوتے تھے۔ کوئی تو وجہ رہی ہو گی نا، جو دوسرے شہروں کے لوگ جان مار کر لیاری کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے آتے تھے۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں جب خواتین کے حقوق طے ہو رہے تھے، تب لیاری میں خواتین دکانیں چلا رہی تھیں۔ لیاری کی ''جھٹ پٹ مارکیٹ‘‘ میں کپڑے سے سبزی تک کی ہر دکان خواتین چلاتی تھیں۔ چھوٹے موٹے کاموں کے لیے انہوں نے مرد ملازم بھی رکھے ہوئے تھے۔ مرد بہت سہولت سے اس مارکیٹ میں خریداری کرتے تھے۔ یہ مارکیٹ اب بھی موجود ہے مگر اب یہ مردوں کے قبضہِ قدرت میں چلی گئی ہے۔
لیاری کے ہوٹل بھی محض ہوٹل نہیں تھے۔ یہ علم و دانش کے گہوارے ہوتے تھے، جہاں کتاب اور آئیڈیاز پر بات ہوا کرتی تھی۔ پراگندہ حال مزدور یہاں چیخوف کے افسانے اور بورخیس کی کہانیاں سنتے سناتے تھے۔ یہاں بیٹھے ہوئے کوچوان اور خوانچہ فروش بھی مصرعوں میں بات کرتے تھے۔ محنت کش کانٹ اور ہیگل کے فلسفوں پر بات کرتے تھے۔ میر بخش بزنجو جیسے قدآور سیاسی لوگ انہی بانکڑوں پر سیاسی مکالموں کے لیے انہیں دستیاب ہوجاتے تھے۔
یہی ہوٹل لیاری کے سنیما گھر بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ کوئی ایسی منفرد بات نہیں تھی۔ منفرد بات یہ تھی کہ انہی ہوٹلوں کے مالکان ممنوعہ فکری لٹریچر اور اچھی فلموں کی کیسٹیں فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے تھے۔ کچھ ہوٹلوں میں چھوٹے موٹے سٹوڈیو بھی بنے ہوئے تھے۔ یہ مالکان خود باذوق تھے، جو آرٹ اور لٹریچر کی شعوری طور پر آبیاری کرتے تھے۔
اندازہ کریں کہ چاچا عبدالحق نے اپنے ہوٹل کا نام ہی ''آفتابِ موسیقی ہوٹل‘‘ رکھا ہوا تھا۔ لوگ بتاتے ہیں کہ اس ہوٹل کی دیواریں کسی منظم آرٹ گیلری کا منظر پیش کرتی تھیں۔ اس کے کاونٹر سے پکے راگ سنائی دیتے تھے۔
سلیمانی ٹی شاپ کے مالک نور محمد کے ڈیزائن کیے ہوئے ثقافتی کپڑوں کی آرٹس کونسل میں نمائش ہوتی تھی۔ صدیق شیدی اپنے ڈھابے پہ خود کڑک چائے بھی بناتا تھا اور ڈھابے کے باہر ہی تھیٹر بھی چلاتا تھا۔ تھیٹر کا تو خیر لیاری میں پورا گروپ موجود تھا۔
بچپن میں کہیں بھی وکٹ لگا کر ہم جس طرح کرکٹ شروع کر دیتے تھے، یہ گروپ کھڑے کھڑے کہیں بھی تھیٹر شروع کردیتا تھا۔ یہاں شادیوں تک میں سفید پردہ لگا کر فلم دکھانے اور تھیٹر سجانے کا رواج موجود تھا۔ یہاں کے پرانے بابوں کو شیکسپئیر، آغا حشر کاشمیری اور امتیاز علی تاج کے ڈراموں کے ڈائیلاگ اور کردار انہی تھیٹروں کے توسط سے یاد ہیں۔
لیاری میں تو کلاسیکی موسیقی کو بھی شادیوں کا لازمی سا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ استاد بڑے غلام علی خان اور مہدی حسن خان یہاں کی شادیوں میں پوری پوری رات سماں باندھ چکے ہیں۔ لیاری کے اپنے موسیقار بھی بے حساب تھے۔ ان کے آرٹ میں ثقافت اور مزاحمت کے رنگ بہت گہرے تھے۔ یہ ایوب خان، یحییٰ خان اور پھر جنرل ضیا کے خلاف ساحر، جالب، فیض اور گل خان نصیر کی غزلیں گاتے ہوئے گزر گئے۔
آج بھی گئے وقتوں کے کچھ نشان وہاں باقی ہیں۔ اب ان کے اندھیرے کمروں میں اداسیاں بولتی ہیں۔ ان کے ہارمونیم خاموش خاموش سے ہیں مگر ضمیر بہت مطمئن ہیں۔
لیاری کے جو لوگ ناخواندہ ہوتے تھے، جاہل وہ بھی نہیں ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور کی ہر آواز کو لیاری نے اپنے میدانوں میں پناہ دی اور ہر عوام دشمن آواز کو اس نے مسترد کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو، جب جنرل ایوب خان کے طاقتور وزیر تھے تو لیاری گئے تھے۔ تب وہ با اختیار تھے اور پروٹوکول میں تھے مگر لیاری نے ان کا اسٹیج الٹ دیا تھا۔
یہی بھٹو اقتدار کی پالکی سے اتر کر عوام کے نمائندہ بنے تو بھی لیاری گئے تھے۔ تب وہ بے اختیار تھے اور تنہا بھی تھے مگر لیاری نے اپنی پلکوں پر ان کے لیے ایک لازوال اسٹیج سجا دیا۔ یہ اسٹیج اس دن بھی سجا رہا، جب بھٹو کو دار پہ کھینچا گیا تھا۔ پورے ملک کے سیاسی چراغ جب سہم کر طاقوں میں سمٹ گئے تھے، لیاری کے چراغ تب بھی رہگزاروں میں جل رہے تھے۔ ان چراغوں کو مشرقی پاکستان جیسا سانحہ نہیں بجھا سکا تھا، کوئی دوسرا حادثہ کیسے بجھا سکتا تھا؟
میں نے کہا نا کہ لیاری کی انرجی پورے پاکستان سے مختلف ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ یہاں کرکٹ جیسا کھیل کھیلا ہی نہیں جاتا، جسے کلونیل دور میں برطانیہ نے اپنے زیر نگیں ملکوں میں رواج بخشا تھا۔ برطانوی راج میں بھی یہ علاقہ کرکٹ سے بہت دور تھا۔ کرکٹ میں استعمال ہونے والی کرمچ کی گیند سے بھی یہ باقاعدہ فٹبال کھیلتے تھے۔
امریکی سفارت خانے کو اس جنون نے اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ سفارت خانے نے اپنے موبائل سنیماز بھجوا کر ان کو فٹبال شوز دکھانا شروع کر دیے تھے۔ لیاری کے فٹبالر کیپٹن عمر کی مہارتوں کے ڈنکے ہندوستان کے ایک ایک کلب میں پٹے ہوئے تھے۔ دلیپ کمار ان کے سچے پرستار تھے۔ اتنے سچے کہ ملاقات کے لیے کپتان عمر کو انہوں نے خود عرضی بھیجی تھی۔
ڈھاکہ فٹبال کلب کا خطے میں نام تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان تک ڈھاکہ کے کلب میں آدھے سے زیادہ کھلاڑی ہوتے ہی لیاری کے تھے۔ ساٹھ میں ترکی کی فٹبال ٹیم پاکستان آئی تو ہماری قوم ٹیم کو آسانی سے شکست دے دی۔ یہی ٹیم پریکٹس میچ کے لیے کراچی گئی تو لیاری کے جوانوں نے پہلے ہی راؤنڈ میں دو گول کر کے ٹیم کے اوسان خطا کر دیے۔
سر پکڑ لیے کہ اصل ٹیم کون سی ہے، وہ جس سے ہم کھیلے تھے، یا یہ جس سے اب ہم کھیل رہے ہیں؟ ترکی نے مگر دل سے قدر دانی کی۔ وہ جبار بلوچ اور مولا بخش گوٹائی کو ساتھ لے گئے۔ انقرہ کے میدان انہیں یاد تو کرتے ہوں گے۔
کرکٹ میچ انڈیا پاکستان کا کیوں نہ ہو، لیاری کان لپیٹ کر اپنی دنیا میں مگن ہوتا ہے۔ فٹبال کا موسم ہو تو لیاری کے انگ انگ میں بجلیاں بھر جاتی ہیں۔ ہر گلی کی رات چاروں آنکھ جاگ جاتی ہے۔ سڑکیں ہر رنگ کی جھنڈیوں سے سج جاتی ہیں اور میدانوں میں سکرینیں نصب ہوجاتی ہیں۔
ایک میدان میں لائیو کرکٹ کے اتنے شائقین نہیں ہوتے ہوں گے، جتنے لوگ لیاری میں فٹبال کی سکرینوں کے سامنے بے قراری سے بیٹھے ہوتے ہیں۔
لیاری کا گریبان چاک ہے اور دامن تار تار ہے۔ تکلیفیں سہہ سہہ کر لیاری کی شکل و صورت بدل گئی ہے مگر لیاری کی روایت نہیں بدلی۔ فیفا ورلڈ کپ کی آواز لگی ہے تو لیاری نے یہاں وہاں پچیس سے زائد سکرینیں نصب کر دیں۔
جرمنی سے ارجنٹائن تک ہر ملک کا جھنڈا اور ہر ٹیم کی شرٹ نظر آ رہی ہے۔ دیواروں پر پیلے، رونالڈینو، رابرٹو کارلوس، میسی اور رونالڈو کی تصویریں ابھر آئی ہیں۔ اپنے پرانے فٹبالرز کو بھی یاد کر رہے ہیں، جو دکھنے میں برازیل کے کھلاڑیوں جیسے ہی تھے۔ یہ انہی کا جنون ہی تو تھا، جس نے لیاری کو چھوٹا سا برازیل بنا دیا تھا۔
میں نے کہا نا کہ لیاری کی انرجی شاید پوری دنیا سے ہی مختلف ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ دنیا میں کرکٹ ہو یا فٹبال، عام طور سے مرد اور خواتین کی الگ الگ ٹیمیں ہوتی ہیں۔ لیاری اس سیارے پر درج وہ نقطہ ہے، جہاں فٹبال کی ٹیم میں لڑکے لڑکیاں ساتھ کھیلتے ہیں۔
یہاں ٹیم میں اندراج صنف کی بنیاد پر نہیں ہوتا، اہلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ لیاری سے ابھرتی ہوئی فٹبالر مائیکاں بلوچ اسی ٹیم کا حصہ ہے۔ وہ کہتی ہے کہ منشیات اور بندوق کبھی ان کی پہچان نہیں تھی۔ علم اور محنت کے بعد ان کی پہچان یہی فٹبال ہے۔
لیاری کی آنکھوں کے گرد اب گہرے سیاہ حلقے ہیں مگر ان آنکھوں میں اب بھی خواب پلتے ہیں۔ ایک آنکھ میں چھوٹے سے یونان کا خواب، دوسری آنکھ میں چھوٹے سے برازیل کا خواب۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔