اس دھرتی کے باسیوں نے 6 اگست 1945ء کو ستر ہزار جانوں کو ہیروشیما میں یک لخت ہلاک ہوتے دیکھا اور صرف دو دن کے وقفے سے ناگا ساکی کے مزید پینتیس ہزار افراد چشم زدن میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس تباہ کاری کا شکار صرف انسان ہی نہ تھے بلکہ وہ قدرتی نظام بھی نشانہ بنا، جو انسانی حیات کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ ایٹم بم کے زمین کو چھونے کے ساتھ ہی اس کے اطراف کے ماحول کا درجہ حرارت سات ہزار دو سو فارن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے اس درجہ حرارت میں ہر طرح کی نباتات اور حیوانات اس صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔
لہذا انسان کے اس خونریز عمل نے نہ صرف زمین سے روئیدگی چھین لی بلکہ ماؤں کی کوکھ معذور بچوں کو جنم دینے لگیں۔ طاقت کے نشے میں گم حکمرانوں نے ایک لمحے کے لیے بھی کیا یہ سوچا ہوگا کہ ان کے اس فیصلے کی کیا قیمت ہے اور وہ قیمت کس کس کو چکانی پڑے گی؟
کہا جتا ہے کہ قوی الجثہ ڈائنوسار کے زمانے میں ایک شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا، جس کے نتیجے میں زمین کے گرد مٹی کا ایک بادل وجود میں آگیا اور یہ بادل زمین اور سورج کے درمیان کچھ اس طرح حائل ہوا کہ زمین سورج کی روشنی سے محروم ہوگئی۔
چونکہ اس اونچائی پر بارش نہیں ہوتی لہذا اگلے کئی سالوں تک مٹی کا وہ بادل ویسے اس علاقے پر چھایا رہا اور زمینی حیات سورج کی روشنی حاصل نہ کرسکنے کے باعث دم توڑنے لگی۔ موجودہ دور میں انسان زمین کی تباہی کے معاملے میں اس قدر خودکفیل ہوچکا ہے کہ کسی آسمانی آفت کا انتظار کیے بغیر چند لمحوں میں ہی زمین کو مکمل تباہی سے دوچارکر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے تحفظ ماحول کی لگن، ’گرین کلیساؤں‘ کی تعداد میں اضافہ
حضرت انسان نے اس وقت ویت نام کے کھیتوں کی کوکھ بھی اجاڑی جب امریکہ نے ویت نامی علاقوں پر ایسا کیمیکل اسپرے کیا جس نے نہ صرف کھڑی فصلیں تباہ کر دیں بلکہ زمین کی زرعی صلاحیت ہی ختم کر دی۔
جنگوں کی تاریخ میں یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ جب دوران جنگ اطراف نے اپنے حریف کی ہر وہ چیز صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی یا انہیں ناقابل استعمال بنا دیا، جو حریفوں کو فائدہ پہنچا سکتی تھی۔ ویت نام کی جنگ میں بھی یہی ہوا کہ تقریباً چار اعشاریہ آٹھ ملین لوگ اس تباہی سے متاثر ہوئے اور چار لاکھ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ان کاروائیوں سے متاثر ہوکر کسی معذوری کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد تقریبا پانچ لاکھ تھی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ کے آغاز میں ہی حضرت انسان کلورین گیس اور مسٹرڈ گیس کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کر چکا تھا۔ وقت کے ساتھ انسان نے ہتھیاروں میں ڈی پلیٹڈ یورینیم کا استعمال کرنا شروع کیا۔ ان ہتھیاروں کا استعمال انسان کے ڈی۔این۔اے کو نقصان پہنچاتا ہے اور قطرہ قطرہ اسے موت کے منہ میں لے جاتا ہے۔
عراق جنگ کے دوران امریکا کی جانب سے جو ہتھیار استعمال کیے گئے ان میں ڈی پلیٹڈ یورینیم کی بھاری مقدار استعمال کی گئی جو کہ تقریبا تین سو چالیس ٹن بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عراق میں کینسر کے بڑھتے ہوئے واقعات محض اتفاق نہیں۔ اس تناظر میں میک اسکلٹن نامی ایک شخص کی پی ایچ ڈی تھیسس کی رپورٹ اس بات کو بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے کہ ڈی پلیٹڈ یورینیم کے استعمال نے عراق کی ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
غیر استعمال شدہ ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے جو طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے اس سے اگر انسان نقصان سے بچ بھی جائیں تو قدرتی نظام ضرور متاثر ہوتا ہے۔ ان ہتھیاروں کو یا تو زمین میں دبایا جاتا ہے یا پھر کسی غیر آباد علاقے میں جا کر دھماکے کے ذریعے ضائع کیا جاتا ہے جو کہ یقینی طور پہ ماحول کے قدرتی نظام کو متاثر کرتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیے ماحولیاتی تبدیلی سے بچوں کا مستقبل خطرے میں: اقوام متحدہ
ہوا کے ساتھ ساتھ قدرتی آبی وسائل بھی حضرت انسان کے اعمال سے محفوظ نہیں رہے۔ دیوہیکل بحری جہاز جب سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو یقینا اپنے ملک کی ترقی اور جاہ و جلال کا مظہر ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف ان بڑے جہازوں سے سمندر کے پانی میں شامل ہونے والی استعمال شدہ تیل کی ایک بھاری مقدارآبی حیات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ ان جہازوں کی تباہی کی صورت میں ان میں موجود تمام بارود اور تیل سمندر برد ہو جاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران سمندروں میں تیل سے پیدا ہونے والی آلودگی کا اندازہ تقریبا پندرہ ملین ٹن لگایا گیا ہے جو کہ آج تک بحرہ اوقیانوس کو آلودہ کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح عراقی فوجوں نے خلیج فارس میں جس طرح سے تیل ضائع کیا اور پھر کویت میں 630 تیل کے کنوؤں کو آگ لگائی اس سے پیدا ہونے والے دھوئیں نے جو ماحول کو نقصان پہنچایا اس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے ۔
موجودہ دور میں امریکی فوج تیل کی سب سے زیادہ کھپت کرنے والا ادارہ ہے۔ امریکی فوج کے زیراستعمال گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی فضا کو آلودہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ دنیا میں استعمال ہونے والے تیل کی پوری کھپت کا 25 فیصد جنگی جہازوں میں استعمال ہو جاتا ہے۔ یہ وہ اعدادوشمار ہیں، جو امن کے زمانے میں لیے گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار یورپ کے کسی چھوٹے ملک جیسا کہ ڈنماَرک میں پیدا ہونے والی آلودگی کے برابر ہے۔
جنگوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا ایک پہلو تو وہ ہے جو دنیا کے سامنے نظر آتا ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے یا اپنی جان بچا کر کیمپوں میں پناہ لینے والے افراد جو کہ امن کے زمانے میں زمین کو اپنی ہری بھری فصلوں سے سجاتے تھے جنگلات کو کاٹ کر تعمیراتی مقاصد یا ایندھن کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے ماحولیاتی تبدیلیاں، پاکستان دنیا کا پانچواں متاثرہ ترین ملک
اسی طرح خانہ جنگی والے ممالک میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ عسکری تنظیموں کے جنگجو جو کہ جنگلوں میں روپوش ہو کر زندگی گزار تے ہیں وہ بھی جنگلات کی لکڑی یا جانوروں کے گوشت پر زندگی کی گزر بسر کرتے ہیں۔ اسی طرح ان تنظیموں کی طرف سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے جنگلی حیات کو اسمگل کرنے کا سلسلہ بھی نظر آتا ہے۔ نتیجتاً کچھ جانور ایسے ہیں جن کی نسل ناپید ہورہی ہے۔ 2006 میں مائی مائی باغیوں نے ورینگا ریور کے علاقے میں ہپوپوٹامس یعنی دریائی گھوڑے کی پوری نسل ہی ختم کر دی جس کی وجہ سے اس علاقے کا قدرتی نظام متاثر ہوا۔
اسی طرح افغانستان میں ہونے والی 30 سالہ جنگ کے نتیجے میں افغان پستے کی پیداوار ختم ہو چکی ہے۔ اور دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے 85 فیصد پنچھی اب اس سرزمین کا رخ بھی نہیں کرتے۔ اسی طرح کانگو میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں وہاں کے ہاتھیوں کی تعداد بائیس ہزار سے کم ہوکر صرف پانچ ہزار رہ گئی۔
اس تمام صورت حال کے پیش نظر دنیا میں ماحولیات کے حوالے سے قانون سازی کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں یو۔این۔جی۔اے نے 6 نومبر کا دن خاص طور پر دنیا کو احساس دلانے کے لیے مخصوص کیا ہوا ہے کہ جنگوں کے دوران ماحولیات کو نقصان نہ پہنچایا جائے لیکن طاقت کے نشے میں گم حکمران اگر اتنی انسانیت رکھتے تو جنگ شروع ہی نہ ہو۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ کا نتیجہ پوری دنیا کی 90 فیصد آبادی کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔