ماحولیاتی تبدیلیاں، بدلتے موسم ایک نشانی
8 اکتوبر 2010اِس کے برعکس جرمنی جیسے ملک میں باقاعدہ دریاؤں کی ساخت سے متعلق ایک لیباریٹری موجود ہے، جہاں نت نئے طریقے وضع کرنے کے لئے تجربات کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔
طوفانی بارشوں کے بعد زمین پر پانی کی مقدار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ دریاؤں کے لئے اُسے سنبھالنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر سیلاب آتا ہے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں۔ ماہرینِ موسمیات کے مطابق یہ سیلاب اِس بات کی واضح علامت ہیں کہ زمینی درجہء حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔
جرمنی میں بھی اور بالخصوص اِس کے مشرقی حصے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران متعدد مرتبہ سیلاب کی صورتِ حال پیدا ہوئی لیکن نقصان مقابلتاً کافی کم رہا۔ اِس کے برعکس پاکستان، چین یا پھر بنگلہ دیش میں سیلاب کے نتیجے میں نہ صرف بڑی تعداد میں لوگ ہلاک اور بے گھر ہوئے بلکہ بڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا۔ آج کل کے امیر صنعتی ممالک میں یہ ایک مسلمہ سی بات ہے کہ بند تعمیر کرتے ہوئے اور سیلابی پانی کو سمیٹنے والے زون تشکیل دیتے ہوئے دریاؤں کو محفوظ بنایا جائے۔
دریا جب پہاڑوں میں اپنا سفر شروع کرتے ہیں تو اُن کی صورت ایک بے ضرر ندی کی سی ہوتی ہے۔ نیچے وادی میں پہنچتے پہنچتے یہی ندی ایک شور مچاتے دریا میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہمیشہ سے انسان بند بناتے ہوئے اِس بے مُہار پانی کو قابو میں کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔
جرمن شہر براؤن شوائیگ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر آندریاز ڈِٹرِش بتاتے ہیں کہ دریا بھی ایک جیتی جاگتی مخلوق کی طرح ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے تجربات سے یہ سبق سیکھا ہے کہ دریاؤں کا رُخ تبدیل کیا جائے یا اُن کے راستے میں کسی بھی طرح کی بیرونی مداخلت کی جائے تو دریا اُس پر ردعمل دکھاتے ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو کبھی بھی خاموشی سے نہیں سہتے۔
آندریاز ڈِٹرِش بتاتے ہیں ، ’اگر آپ نشیب میں کسی دریا کا مشاہدہ کریں، جہاں ڈھلوان زیادہ نہ ہو تو آپ کو وہاں قدرتی طور پر دریا کئی شاخوں میں بٹا ہوا نظر آئے گا۔ کسی بڑے واقعے کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک شاخ بند ہو جائے، ایسے میں دریا کسی ایک طرف کو دباؤ ڈالتے ہوئے اپنا نیا راستہ بنا لے گا۔ اب اگر اِس نئے راستے میں آپ نے کوئی مضبوط پُل بنا رکھا ہے تو دریا اُس کی کوئی پروا نہیں کرے گا اور پُل کو بہا لے جائے گا۔‘
ایسی ہی بڑی تباہ کاریوں کو روکنے کے موضوع پر تحقیق کے لئے جرمن شہر براؤن شوائیگ کے پانی سے متعلق لائِشٹ وائس انسٹیٹیوٹ میں ایک لیباریٹری قائم کی گئی ہے۔ وہاں کسی بھی منصوبے کو پہلے چھوٹے چھوٹے ماڈلز پر تجربات کر کے جانچا جاتا ہے۔ جرمنی میں دریاؤں کو کنٹرول کرنے، اُنہیں سیدھا کرنے اور اُن میں آنے والے سیلاب سے بچنے کے طریقے وضع کرنے کا کام کوئی دو سو سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔
براؤن شوائیگ کی لیباریٹری کی وساطت سے جرمنی اور ایشیا کے مختلف ممالک کے درمیان دریاؤں کو کنٹرول کرنے کے شعبے میں اشتراکِ عمل موجود ہے۔ تاہم ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ملکوں کو جدید ماہرین کے ساتھ ساتھ جدید آلات کی بھی ضرورت ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن کا ایک ادارہ کوآنٹم ہائیڈرومیٹری ایسے آلات تیار کرتا ہے، جن کی مدد سے کسی دریا وغیرہ میں بہنے والے پانی کی مقدار کو ماپا جا سکتا ہے۔ ایک اٹیچی کیس کے سائز کے یہ آلات پانی میں تیرتے رہتے ہیں اور موبائل فون، سیٹیلائٹ یا انٹرنیٹ کی وساطت سے اُسی وقت ساتھ ساتھ یہ بتاتے رہتے ہیں کہ متعلقہ مقام سے پانی کی کتنی مقدار گزر رہی ہے۔
آج کل برلن کے اِس ادارے سمیت دُنیا بھر میں صرف پانچ کمپنیاں ایسی ہیں، جو اِس طرح کے جدید آلات تیار کر سکتی ہیں۔ ایسا ہی ایک اور ادارہ شمالی جرمن شہر کِیل کا جنرل اَکُوسٹِکس ہے، جو پانی کی نگرانی کرنے والے انتہائی حساس الٹرا ساؤنڈ آلات تیار کرتا ہے۔ اِس کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر ژَینز ہَینسے کے مطابق کچھ ممالک کے ساتھ اشتراکِ عمل کے دوران دُشواریاں بھی پیش آتی ہیں، جیسے کہ مثلاً پاکستان کے ساتھ۔
وہ بتاتے ہیں،’پاکستان جیسے ممالک کو سیاسی مسائل کا سامنا ہے، جن کا منفی اثر، ظاہر ہے، تجارت پر بھی ہوتا ہے۔ اِس طرح کے ملکوں کے ساتھ کاروبار روایتی طور پر بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ ہر بات کا انحصار مخصوص شخصیات پر ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس موزوں روابط یا سفارش نہیں ہے تو پھر وہاں اپنے آلات فروخت کرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔‘
پاکستان جیسے ملکوں میں صرف مالی وسائل ہی کی کمی نہیں ہے، وہاں انجینئرز اور شعبہ جاتی مہارت کا بھی فُقدان پایا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس جرمنی کے پاس بپھرے دریاؤں کو قابو کرنے کا بیش بہا تجربہ ہے۔ ترقیاتی امداد کے دائرے میں یہ مہارت اور علم ترقی پذیر ملکوں کو فراہم کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ پاکستان انتشار کا شکار ہے اور خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پانی کے شعبے میں تعاون کرنے کے لئے مختلف بحران زدہ ملکوں میں جانے والے کئی جرمن ماہرین کو اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے ہیں لیکن اُن کی موت کا باعث پانی نہیں تھا بلکہ وہ انسانوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک