1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماضی کے قبائلی علاقوں میں آج بھی قانون کی بجائے جرگے حکمران

فریداللہ خان، پشاور
1 اکتوبر 2023

صحافی معراج خالد کو جرگے کے خلاف آواز اٹھانے پر خاندان سمیت علاقہ بدر کر دیا گیا۔ جرگہ سسٹم کے مخالفین کا موقف ہے کہ اگر صدیوں پرانا نظام ہی قائم رہنا تھا تو پھر قبائلی علاقوں کو بندوبستی علاقوں میں ضم کیوں کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4WybE
Waziristan, Pakistan
تصویر: Faridullah Khan/DW

 وفاق کے زیر انتظام سابقہ قبائلی علاقہ جات یا فاٹا کو صوبےخیبر پختوانخواہ کا حصہ بنے پانچ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن یہاں آج بھی اہم معاملات ملکی آئین و مروجہ قوانین کے بجائے روایتی جرگوں کے ذریعے حل کیے جا رہے ہیں۔

مئی 2018ء میں 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا اور یہاں ملک کے دیگر حصوں کی طرح ملکی قوانین لاگو کیے گئے لیکن اس کے باوجود قبائلی اضلاع کے عوام جہاں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں وہاں ان کے فیصلے پاکستان کےآئین و قانون کی بجائے مقامی جرگوں میں کیے جاتے ہیں۔

 حال ہی میں جنوبی وزیر ستان میں مقیم ایک ایک تعلیم یافتہ نوجوان صحافی معراج خالد نے سوشل میڈیا پر ایک اپنی ایک پوسٹ میں پوسٹ مقامی جرگے کی جانب سے لوگوں کے گھر مسمار کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا۔ انہوں نے صوبائی حکومت سے یہاں اپنی عملداری قائم کرنے اور عوام کو قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

Waziristan, Pakistan
سکیورٹی اہلکار جنوبی وزیر ستان میں واقع صحافی معراج خالد کے خاندانی گھر کو جرگے کے حکم پر مسمار کرنے سے بچانے کے لیے پہرے پر موجود ہیںتصویر: Faridullah Khan/DW

معراج خالد کے اسی پوسٹ کی بنا پر جنوبی وزیرستان کے زلی خیل نامی قبلیے کے نو رکنی جرگے نے انہیں پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی اور اعلان کیا کہ اگر کسی نے ان کی حمایت یا اس خاندان کے ساتھ تعاون کیا تو جرگہ انہیں دس لاکھ جرمانہ اور علاقہ بدر کر دے گا۔ مقامی جرگے کے اس اعلان کے بعد معراج خالد کے والدین گھر بار چھوڑ کر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں، جہاں ایک جاننے والے نے ان کے لیے کرائے کے مکام میں رہنے کا بندوبست کیا۔

طاقتور جرگہ سسٹم کے سامنے بے بس ہے، شیر علی

معراج خالد وزیر کے والد شیر علی نے علاقے سے ہجرت کرتے ہوئے کہا، '' میں جرمانہ ادا نہیں کرسکتا اور انتظامیہ تحفظ فراہم نہیں کر سکتی لہذا اپنی زمین اور جائیداد سمیت اپنا آبائی علاقہ اور گھر بار چھوڑا ہے''۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے علاقے میں کھیتی باڑی کرتے تھے اور اب سیب کے  ان کے باغات  کی رکھوالی کرنے کے لیے کوئی نہیں، ''یہ باغات اب برباد ہوں گے اور مویشی بھوک سے مرجائیں گے۔'' ان کے بقول ان کے بیٹے نے صرف اتنا کہا کہ ریاست کے اندر ریاست کا کوئی جواز نہیں بنتا اور اگر اس نے کوئی خلاف قانون بات کی ہو تو ریاست کو اسے سزا دینے کا اختیار ہے، ''ویسے تو جرگہ نو ارکان پر مشتمل ہے، لیکن اس کی پشت پر پورا قبیلہ کھڑا ہوتا ہے۔''  

جرمانے کے خوف سے علاقہ بدر

علاقے کی پولیس کا کہنا تھا کہ معراج خالد وزیر کو یقین دلایا گیا کہ وہ انہیں تحفظ فراہم کریں گے اور ان کے گھر پہلے دن سے درجنوں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے جبکہ ضلعی انتظامیہ گھر مسمار نہ کرنے اور صلح کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا تھا لیکن اس کے باجود بھی معراج خالد کے والد علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔

جرگے نے اعلان کیا تھا کہ اگر علاقے میں کسی نے شیر علی کے ساتھ تعاون کیا تو اسے 10 لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اور یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کی بنا پر انہیں گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنا پڑی۔

Waziristan, Pakistan
شمالی وزیر وستان کا صدر مقام میران شاہ تصویر: Faridullah Khan/DW

انتظامیہ اور ضلعی پولیس بے بس کیوں؟

 اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر فرمان اللہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ''پولیس کی بھاری تعداد شیر علی کے گھر کے آس پاس موجود ہے انہیں پہلے بھی کہا تھا کہ پولیس آپ اور اہل خانہ کو حفاظت فراہم کریں گے علاقہ نہ چھوڑیں۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ 17ماہ سے کسی کا گھر مسمار نہں کیا گیا حالات مکمل کنٹرول میں ہیں اور ڈپٹی کمشنر جرگے کے ساتھ رابطے میں ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ جرگے کی جانب سے جرمانے بھی وصول کیے جاتے ہیں تو اس پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ زالی خیل قوم کا یہ جرگہ صرف اپنی قوم کے لوگوں کو مقامی روایات کی خلاف ورزی پرجرمانہ کرتا ہے۔

 شمالی وزیرستان کے ایک سیاسی رہنما نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شمالی وزیرستان کے کے پی کے بندوبستی علاقوں  میں انضمام کے بعد بھی تقریبا چار گھر مسمار کیے گئے جبکہ جنوبی وزیرستان کے ایک اور صحافی نے بتایا کہ اس علاقے  میں  مذکورہ عرصے کے کے دوران اٹھارہ گھر مسمار یا نذر آتش کئے گئے لیکن انتظامیہ خاموش رہی۔

 حکومتی عملداری

نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان  کا کہنا تھا کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، ''اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کو قانون کے مطابق سزا دینا اداروں اور عدالتوں کا کام ہے افراد کا نہیں۔حکومتی عملداری کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گااور ماورائے قانون اقدام کی کسی کو اجازت نہیں ہو گی۔''

Waziristan, Pakistan
میران شاہ پریس کلب تصویر: Faridullah Khan/DW

 جرگے متحرک ہونے کی وجوہات؟

خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد بھی شمالی اور جنوبی وزیرستان میں قومی جرگے پہلے ہی کی طرح متحرک ہیں اور ان کو انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے شہری ان جرگوں سے خود رابطہ کرتے ہیں۔

 قانونی ماہر سجید آفریدی کا کہنا ہے کہ جرگوں کے ذریعے بعض مسائل اور تنازعات فوری طور پر حل کیے جا سکتے ہیں اگر فریقین آپس میں راضی ہوں تو جرگے کے فیصلے عدالت بھی تسلیم کرتی ہیں تاکہ مسائل کا جلد اور فوری حل ہو سکے۔''

معراج خالد کے لیے صحافی میدان میں

جنوبی وزیرستان سمیت ضلع خٰیبر کے تحصیل جمرود میں بھی صحافیوں نے جرگہ کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ خیبر پختونخوا یونین آف جرنلسٹس کے صوبائی صدر شمس مومند نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہم قبائلی صحافی قانون اور آئین سے متصادم روایتی جرگوں کے ذریعے جرمانے عائد کرنا، کسی کو علاقے سے بے دخل کرنا اور گھروں کو مسمار کرنے جیسے روایتی فیصلوں کو نہیں مانتے اب یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔

Waziristan, Pakistan
معراج خالد کو حکومتی تحفط دلانے کے مطالبے کے ساتھ جمرود پریس کلب کے باہر صحافیوں کا احتجاجتصویر: Faridullah Khan/DW

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ورکرز کے صدر شمیم شاہد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، '' انتظامیہ فوری طور پر معراج خالد کی فیملی کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے انہیں اپنے گھر اور علاقے میں واپس لانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت آئین و قانون کے متوازی جرگوں، لشکروں اور امن کمیٹیوں پر فوری پابندی عائد کرے۔

قانونی ماہرین کی رائے

معروف قانون دان اور پشاور ہائی کورٹ کے وکیل سجید آفریدی نے جرگہ کی قانونی حیثیت کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ''پختونخوا کے دیگر اضلاع میں اب بھی جرگے ہوتے ہیں اور یہ ایک طرح سے فوری انصاف کی فراہمی کے لیے فریقین کے مابین تصفیے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر جرگے میں کسی تنازعے پر فریقین متفق ہوں تو مسائل کے حل کے لیے یہی جرگہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔''

قانون تو بن گیا لیکن ’میراتہ‘ ختم کب ہو گا؟