’’مالیاتی بوجھ بانٹنے میں ہی یورو کرنسی کا مستقبل ہے‘‘
11 اکتوبر 2011نیویارک یونیورسٹی سے وابستہ ٹامس سارجنٹ اور کرسٹوفر سِمز کو مشترکہ طور پر سال رواں کا نوبل انعام برائے اقتصادیات دیا گیا ہے۔ایک پریس کانفرنس میں ٹامس نے کہا کہ ریاست متحدہ ہائے امریکہ کے قیام کے اقتصادی پس منظر پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یورو زون کا موجودہ بحران اور اس کا حل کیا ہے۔ ان کے بقول،’ اقتصادی نظریے کی مناسبت سے یورپ اور یورو کو کوئی نیا مسئلہ درپیش نہیں، اصل مشکل سیاست ہے‘۔ ان کے بقول 1780ء کی دہائی میں امریکہ کی مثال اس ضمن میں انتہائی مناسب ہے، جب وہاں 13 خود مختار حکومتیں اور 13 حقیقی ریاستیں تھیں اور ہر ایک کو محصولات بڑھانے اور نوٹ چھاپنے کا اختیار حاصل تھا۔
ٹامس سارجنٹ کے مطابق جس طرح 1787ء میں ان ریاستوں نے اپنے بڑھتے ہوئے بجٹ خساروں کو ایک وفاقی حکومت تلے جمع کرکے اُسے ہی محصولات عائد کرنے کا اختیار دے دیا تھا، اسی طرح اب یورو زون کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک طویل صبر آزما اور پیچیدہ عمل ہے، ’جیسا کہ یونان کے معاملے میں کہا جاتا ہے کہ یورو زون کے کمزور رکن ممالک کو خارج کردیا جائے، یہ مسئلے کا حل ہر گز نہیں‘۔
کرسٹوفر سِمز کا کہنا ہے کہ انہوں نے یورو زون کی رکن ریاستوں کے قرضوں کے بحران میں گِھرنے کی پیش گوئی پہلے ہی کر دی تھی،’کچھ برس قبل میں نے ایک مقالہ لکھا تھا، یورو کرنسی دراصل ایک مرکزی بینک کی بنیاد پر تشکیل دی گئی نہ کہ ایک متحدہ مالیاتی انتظامیہ کی بنیاد پر، اس کی وجہ سے ایسے سوال ابھرے کہ آخر اُس صورت میں کیا ہوگا، جب کرنسی اور حکومتی اخراجات سے متعلق رکن ممالک کے مابین رابطہ کاری کا معاملہ پیش آئے گا‘۔
سِمز کا کہنا تھا کہ اِس وقت نہ تو رابطے واضح ہیں اور نہ ہی یورو زون کے تمام مالیاتی ادارے مرکزی بینک سے جُڑے ہوئے ہیں، ’یورو کرنسی کا مستقبل مبہم نظر آرہا ہے‘۔ ان کے مطابق اگر یورو زون کے رکن ممالک اپنی مشترکہ کرنسی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں مالیاتی بوجھ بانٹنا ہوگا۔
واضح رہے کہ یورو زون میں یونان، پرتگال اور آئرلینڈ کی حکومتیں ریاستی قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح دبی ہوئی ہیں جبکہ اسپین اور فرانس کی معیشت بھی متاثر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں یورو کرنسی کے مستقبل سے متعلق کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ