دسمبر کو گزرے کچھ دن ہوئے ہیں۔ اس مہینے کی سولہ کو پاکستان کا ایک بازو ٹوٹ کر خلیج بنگال میں گر گیا تھا۔ سن اکہتر میں شیخ مجیب کی تقریر پر ختم ہونے والی یہ کہانی سن اڑتالیس میں قائد کی تقریر سے شروع ہوئی تھی۔ جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ہماری قومی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی۔ بنگال کے لوگ جناح صاحب کے لیے بے حد احترام رکھتے تھے، اس دن مگر بنگالیوں کی وضع داری جواب دے گئی۔ تمبو الٹ دیے گئے اور قائد کے آگے سے شمع اٹھا لی گئی۔ مزید کچھ کہے بغیر قائد کو جانا پڑ گیا۔
پروفیسر سرور لکھتے ہیں کہ تقسیم کے بعد پاکستان کے رہنما فضل الہی چوہدری کی مولانا آزاد سے ملاقات ہوئی۔ ہزار اختلاف کے باوجود مولانا نے خیر خواہی کا جذبہ رکھا۔مولانا نے درست سمت میں سفر کرنے کے لیے کئی مشورے دیے۔ یہ بھی کہا، مجھے مشرقی پاکستان کا معاملہ نازک لگ رہا ہے۔ میری تجویز ہو گی کہ ان کی ثقافت کے ساتھ کبھی چھیڑ چھاڑ مت کیجیے گا۔ میری عمر کلکتہ میں گزری ہے، میں جانتا ہوں کہ اپنی زبان کو لے کر یہ لوگ کتنے حساس ہیں۔
اس حساسیت کا اندازہ اگر مولانا کی تجویز سے نہیں لگانا تھا تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہونے والی بدمزگی سے ہی لگا لیتے۔ مگر نہیں، ہم نے بنگالیوں کے اضطراب کو نظر انداز کیا اور جلتی پر تیل چھڑکنے کا برابر کام کیا۔ بنگالی اپنی دُھن کے پکے تھے۔ گھر سے نکلے تو واپس نہیں لوٹے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سامنے چالیس ساتھیوں کی لاشیں گریں، یہ دفنا کر آگے بڑھ گئے۔ راستے میں البدر اور الشمس جیسی رکاوٹیں بھی آئیں، گرا کر گزر گئے۔ اگرتلہ سازش کیس جیسا جال بھی بُنا گیا، کتر کے نکل گئے۔ کچھ نہ بن پڑا تو بندوقچی نے مشرق سے مغرب کی طرف اطلاعات کا بہاؤ روک دیا۔ کیمرے کی آنکھ میں پراپگینڈے کی سلائی پھیر دی گئی۔ دانشوروں کے قلم سرکاری دوات پی کر جھوٹ اگلنے لگے۔ مگر جن کے احساس پر حرص کے سائے نہیں چھائے تھے، وہ شاعر بہت کچھ محسوس کر رہے تھے۔ ایک چیز ناصر کاظمی نے بھی محسوس کی،
جنت ماہی گیروں کی
ٹھنڈی رات جزیروں کی
سبز سنہرے کھیتوں پر
پھواریں سرخ لکیروں کی
اس بستی سے آتی ہے
آوازیں زنجیروں کی
مجھ سے باتیں کرتی ہیں
خاموشی تصویروں کی
مگر کب تک؟ خزاں چھٹ گئی، بہار گزر گیا اور سرما کا موسم آ گیا، جو بات طاقت نے زبان کے سوال سے شروع کی تھی، وہ بات ڈھاکہ میں آزادی کا جھنڈا لہرا کر دلیل نے مکمل کر دی۔ اب آرام سے ایک طرف بیٹھ کر وہ پٹسن بیچتے ہیں بنگلہ بولتے ہیں۔ پانی کی لہروں میں دُھنیں چھوڑتے ہیں اور رابندر ناتھ ٹیگور کی زبان میں کہانیاں لکھتے ہیں۔
بنگلہ دیش عمر میں ہم سے پچیس برس چھوٹا ہے۔ میدانِ حرب و ضرب کے علاوہ ہر شعبے میں ہم سے آگے ہے۔ وہاں کے لوگوں نے وقت پر ایک بات کو سمجھا اور پھر اسے زندگی کا وظیفہ کر لیا۔ جس غلطی کی وجہ سے ہمارے بخت اجڑ گئے، ہمیں لگتا ہے اسی غلطی کو دہراتے رہنے سے ہمارے دن پھر جائیں گے۔ ہم نے بنگالیوں سے اُن کی زبان میں بات نہیں کی، رابطہ ٹوٹ گیا۔ دل ٹوٹے اور پھر ملک ٹوٹ گیا۔ ہم اب بھی پختونخوا وطن، سندھ، گلگت بلتستان، سرائیکی وسیب اور بلوچستان سے اصرار کر رہے ہیں کہ وہ ہم سے ہماری زبان میں بات کریں۔ نتیجہ یہ کہ وفاق اور صوبوں کے بیچ خلیجِ بنگال سے بھی بڑی ایک خلیج قائم ہو گئی ہے۔ ہماری بات پہنچ رہی ہے اور نہ اُن کی آواز آرہی ہے۔ جو ہم سفر ہیں انہی سے ہمنوائی نہیں ہے۔کسی بے پرواہ بزرگ کی طرح ہم اسے سکون سمجھ رہے ہیں، جبکہ یہ خطرے کا پیش خیمہ ہے۔ ابلنے سے کچھ دیر پہلے طوفان خاموشیوں میں پناہ لیتے ہیں۔
مادری زبانوں کا سوال پاکستان میں محض اپنی ماں بولیوں سے جذباتی لگاؤ کا مسئلہ نہیں ہے۔ جذباتی لگاؤ سے بڑھ کر یہ تاریخ کے صفحات کی ترتیب ٹھیک کرنے کی جدوجہد ہے۔ ہماری معیشت کے بہت بنیادی سے سوال اس جدو جہد سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے کچھ بنیادی سے مسائل ہیں، جو وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ جو مسائل اور وسائل کی بحث ہے، یہ ہماری قومی زبان میں لکھی کتابوں میں ناپید ہے۔ ہم نے مادری زبانیں کاٹ کر در اصل وہ راستہ کاٹا ہے جو گاؤں کے قدیم کتب خانے کی طرف جاتا ہے۔ اُس کتب خانے کی طرف، جہاں دھول میں اٹی ہوئی ایک کتاب رکھی ہے۔ اِس کتاب میں ترقی کا اسمِ اعظم لکھا ہوا ہے، مگر ہم پڑھ نہیں پارہے۔ ہمیں ماں بولی نہیں آتی۔
بنگال کے لوگ ماں بولی کا آخری سوال لے کر اکیس فروری کو نکلے تھے۔ سوال کا جواب دینے کی بجائے ہم نے انہیں لاشیں دیدیں۔ دنیا اب اکیس فروری کا دن مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر مناتی ہے۔ فروری کا راگ لیکن میں نے جنوری میں کیوں چھیڑ دیا ہے؟ اچھا سوال ہے۔ پشاور میں مفکورہ نام کا ایک حجرہ ہے، جس میں حیات روغانی نام کا ایک چاک گریبان ملنگ بیٹھتا ہے۔ لوگ اس کے پاس دماغوں پر لگے ہوئے تالوں کی ڈپلوکیٹ چابیاں بنوانے آتے ہیں۔
یہ آنے والوں سے کئی زبانوں میں بات کرتا ہے۔ کسی سے محبت جیسی عالمگیر زبان میں اور کسی سے موسیقی جیسی آفاقی زبان میں۔ زیادہ تر اسی زبان میں بات کرتا ہے، جس زبان میں لوگ خواب دیکھتے ہیں اور خود کلامی کرتے ہیں۔ کئی مہینوں سے اس نے مادری زبانوں کے لیے ایک تحریک اٹھائی ہوئی ہے۔ جس مہینے ہم نے بنگال کھویا، اس مہینے اس تحریک کے دو اجلاس ہو چکے ہیں۔ بہت بے ضرر سے کچھ ایسے مطالبات ہیں، جن کی گنجائش آئین میں پہلے سے موجود ہے۔ دیکھیے
۱۔الف) خیبر پشتونخوا ریجنل لینگویجز اتھارٹی ایکٹ 2012‘، جو آئین کے تحت وجود میں لایا گیا مجاز ادارہ ہے، کو بحال کرنا اور اس کے مادہ ششم (power and function) کی روح کے مطابق فعال کرنا۔ یہ مجاز ادارہ پشتونخوا میں بولی جانے والی مادری زبانوں کی ترقی اور ان زبانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے قابل بنانے کے لیے اپنا آئینی کردار ادار کرے۔
ب) مادری زبانوں میں نصاب کے حوالہ سے'ڈائریکٹوریٹ آف کریکولم اینڈ ٹیچرز ایجوکیشن‘ (DCTE) اور 'خیبر پشتونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ‘ کے مسئولین سے ملاقات کرنا اور انہیں مادری زبانوں کی کتب اور اساتذہ کی دستیابی کو یقینی بنانے میں کردار ادا کرنے کی تاکید کرنا۔
۲۔ سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں میں مادری زبانوں میں بات کرنے، پڑھنے اور لکھنے پر خود ساختہ پابندی اور جرمانے کا تدارک کرنا۔ اس مد میں حکومت ایک آفیشل نوٹیفیکیشن کرے اور ان اداروں کو ہدایات جاری کریں کہ جو بھی ادارہ مادری زبانوں میں بات کرنے، لکھنے یا پڑھنے پر خود ساختہ پابندی لگانے کا مرتکب ہو گا تو وہ ادارہ ایک کروڑ روپیہ جرمانہ ہو گا اور یہ رقم 'خیبر پشتونخوا ریجنل لینگویجز اتھارٹی‘ کے فنڈ میں جمع کیا جائے گا۔
۳۔أ) مادری زبانوں کے نصاب (لازمی) کے ساتھ کسی بھی قسم کا 'اختیاری‘ مضمون نہیں رکھا جائے گا۔
ب) کالجز اور یونیورسٹیوں میں بی ایس پروگرامز میں مادری زبانوں کو 'لازمی‘ مضمون کے طور پر شامل کرنا۔
۴۔ سرکاری اور غیرسرکاری سکولوں میں، بغیر کسی استثنیٰ کے (خواہ کوئی ادارہ خود کو کتنا بھی بورژوا سمجھے/ جتنا بھی زور لگائے، خواہ وہ یہ جواز پیش کریں کہ یہاں کے طلباء مادری زبانوں کو بولنا/ پڑھنا/ لکھنا نہیں چاہتے؛ پھر بھی وہاں) مادری زبانوں کی کتاب اور استاد کو یقینی بنایا جائے اور 'لازمی‘ کو بمعنی 'لازمی‘ لاگو کیا جائے۔
یہ چار بہت سیدھی اور سادے سے تقاضے ہیں۔ تقاضا کرنے والوں کے لہجوں میں مایوسی ہے اور طبعیتوں میں اضطراب ہے۔ چار تقاضوں کو بروقت احترام نہ ملے تو بات چھ نکات تک پہنچ جاتی ہے۔ جو خود چودہ نکات پیش کرنے کے عادی ہوں، ان میں چھ نکات سننے کا حوصلہ تو ہونا ہی چاہیے۔اور چار مطالبات سننے کے لیے تو کچھ زیادہ حوصلہ بھی نہیں چاہیے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔