متعدد اعلیٰ شامی اہلکاروں کے خلاف یورپی پابندیاں
10 مئی 2011یورپی یونین کی طرف سے عائد کردہ یہ پابندیاں ان اقدامات کا حصہ ہیں، جن کا مقصد دمشق حکومت کو جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ ان تیرہ افراد کے اثاثے منجمد کر دینے کے علاوہ ان کے یورپی یونین کے کسی بھی رکن ملک تک سفر پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
یورپی یونین کے مطابق یہ تیرہ سرکردہ شامی اہلکار مظاہرین کے خلاف طاقت کے بےجا استعمال میں ملوث ہیں۔ شامی صدر بشارالاسد کے خلاف فی الحال کسی بھی قسم کی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں تاہم یورپی یونین نے خبردار کیا ہے کہ اگر شام میں ریاستی طاقت کے غلط استعمال کو نہ روکا گیا تو صدر اسد پر بھی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے ایک مرتبہ پھر دمشق حکومت سے ملک میں اصلاحات کا عمل شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہاں جاری خونریزی کو روکا جا سکے۔
یورپی یونین نے شام سے متعلق اپنے اقدامات کے پہلے مرحلے میں جن 13 شخصیات پر پابندیاں عائد کی ہیں، ان میں شامی صدر کے 43 سالہ بھائی مہر الاسد سر فہرست ہیں۔ مہر الاسد شام میں ایک انتہائی بااثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یورپی یونین کی اس فہرست میں شامی خفیہ ایجنسی کے 65 سالہ سربراہ علی مملوک کے علاوہ نئے وزیر داخلہ محمد ابراہیم الشہر بھی شامل ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق شامی مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال میں یہی دو شخصیات سب سے زیادہ ملوث ہیں۔
دوسری جانب آج منگل کو شام کے ساحلی شہر بانیاس میں سینکڑوں خواتین نے گرفتار شدہ مظاہرین کی رہائی کے لیے ایک ریلی نکالی۔ اسی شہر میں شامی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر اپنے حالیہ کریک ڈاؤن کے دوران سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔
آج ہی شامی صدر بشار الاسد کی ایک اہم مشیر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ دمشق حکومت گزشتہ قریب دو ماہ سے جاری حکومت مخالف مظاہروں پر قابو پانے کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔ صدر اسد کی مشیر اور ترجمان بثینہ شعبان نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ شام میں حالات جلد ہی قابو میں آ جائیں گے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک