متنازعہ کشمير ميں توانائی کی پيداوار کے بھارتی منصوبے
16 مارچ 2017بھارتی زير انتظام کشمير ميں چھ ہائیڈرو پاور منصوبوں کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے ليے ان پر کام جاری ہے، جس ميں پچھلے تين ماہ کے دوران خاطر خواہ تيزی ديکھی گئی ہے۔ اس بارے ميں بيان بھارتی واٹر ريسورس منسٹری اور سينٹرل اليکٹرسٹی اتھارٹی کے دو اہلکاروں نے دو مختلف مواقع پر ديا۔ بھارتی اہلکاروں نے مزيد بتايا کہ ان منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد جموں اور کشمير ميں بجلی کی پيداوار ميں کافی اضافہ ہو جائے گا۔ اس وقت وہاں تين ہزار ميگا واٹ بجلی پيدا ہو رہی ہے۔ منصوبوں کا تمام تر تعميراتی کام دريائے چناب پر ہو گا۔
پاکستان نے چھ ميں سے چند منصوبوں کی مخالفت کی ہے۔ اسلام آباد حکام کا موقف ہے کہ کچھ منصوبے، عالمی بينک کی ثالثی ميں پانی کی غير منصفانہ بنيادوں پر تقسيم کے ليے طے ہونے والے معاہدے کی خلاف وزری کا سبب بن سکتے ہيں۔ پاکستان ميں زراعت کے ليے درکار پانی کا اسی فيصد دريائے سندھ کے معاون دریائے چناب سے حاصل ہوتا ہے۔ يہاں يہ بات بھی اہم ہے کہ موسمياتی تبديليوں، زراعت کے پرانے طريقہ ہائے کار اور آبادی ميں اضافے کے سبب، پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور آنے والے سالوں ميں اس کی شدت بڑھنے کا قوی امکان موجود ہے۔ سن 2011 ميں امريکی سينيٹ ميں کميٹی برائے خارجہ امور کو پيش کی گئی ايک رپورٹ ميں يہ تنبيہ کی گئی تھی کہ نئی دہلی حکومت ايسے منصوبوں کو پاکستان کے ليے پانی کی ترسيل محدود کرنے کے ليے استعمال کر سکتی ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفيس ذکريہ نے تازہ پيش رفت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ يہ تکنيکی معاملہ ہے اور وہ اس بارے ميں ملکی وزارت برائے توانائی و پانی سے مشاورت کريں گے۔ انہوں نے البتہ بتايا کہ اسی ماہ لاہور ميں انڈس کميشن کا ايک اجلاس منعقد ہو گا جس ميں بھارتی نمائندے بھی شرکت کريں گے اور امکاناً وہاں يہ معاملہ اٹھايا جا سکتا ہے۔
ماحولياتی ماہرين نے بھی يہ سوال اٹھايا ہے کہ آيا نئی دہلی حکومت نے ان منصوبوں ميں تيزی لاتے ہوئے تمام قواعد و ضوابط کا خيال رکھا ہے یا نہیں۔ اس علاقہ ميں اکثر زلزلے کے جھٹکے بھی محسوس کيے جاتے ہیں اور ایسے مقامات پر ڈیمز کی تعمیر خطرات کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب بھارت کا موقف ہے کہ يہ منصوبے پانی کے بہاؤ اور اونچائی کو بروئے کار لاتے ہوئے توانائی کی پيداوار کا سبب بنيں گے، نہ کہ اسے پانی ذخيرہ کر کے اور يوں يہ معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے ميں نہيں آتے۔