محمد یونس کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر
9 مارچ 2011منگل کو بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے حکومتی دلائل کی روشنی میں گرامین بینک کے چیف کی اپیل کو خارج کردیا تھا۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل ستر سالہ محمد یونس کو بنگلہ دیشی سینٹرل بینک نے ریٹائر منٹ کی ساٹھ سال کی عمر کی حد بہت سال پہلے تجاوز کر دینے کی بنیاد پر گزشتہ ہفتہ کے دوران ملازمت سے برخواست کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس حکم کے خلاف نوبل امن انعام یافتہ بنگلہ دیشی بینکار نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ جسٹس ممتاز الدین احمد نے ان کی برخواستگی کے حکومتی ایکشن کو جائز اور قانونی قرار دیتے ہوئےاپیل کو مسترد کردیا تھا۔
بدھ کے روز ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف محمد یونس کے وکلاء نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کردی ہے۔ انہوں نے اعلیٰ ترین عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے حکم کو فی الفور معطل کرکے ان کو بینک کے معمولات میں شرکت کی قانونی اجازت فراہم کرے۔ سپریم کورٹ نے اپیل پر ابتدائی پیشی کے دوران ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کردیا تھا۔ البتہ اپیل پر باقاعدہ عدالتی کارروائی شروع کرنے کے لیے پندرہ مارچ کی تاریخ مقرر کی ہے۔
محمد یونس کے حامیوں کا خیال ہے کہ حکومت یونس کے خلاف پرزور انداز میں مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یونس اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے درمیان اختلافات کو خیال کیا جا رہا ہے۔ دو روز قبل محمد یونس نے واشنگٹن میں مائیکرو فنانسنگ کی ایک کانفرنس میں بذریعہ ویڈیو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت گرامین بینک پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنا من پسند شخص بطور چیف مقرر کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب بنگلہ دیشی حکومت نے محمد یونس کی جگہ مزمل حق کو گرامین بینک کا نیا چیرمین نامزد کردیا ہے۔ نئے چیف کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ سے اپیل کے خارج ہونے کے بعد محمد یونس کا گرامین بینک سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ مزمل حق کے مطابق گرامین بینک کا بورڈ اگلے ہفتے کے دوران نئے چیف ایگزیکٹو کی تلاش کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی مقرر کرنے کا فیصلہ کرے گا۔
گرامین بینک بنگلہ دیش کے معاشی منظر نامے پر ایک معتبر نام ہے۔ مائیکرو کریڈٹ فنانسنگ کے علاوہ اس نے سولر انرجی پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ موبائل فون انڈسٹری میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
بنگلہ دیش میں گرامین بینک اور محمد یونس لازم و ملزوم تصور کیے جاتے ہیں۔ اس بینک کی بنیاد انہوں نے سن 1983میں رکھی تھی۔ اس بینک کے تقریباً 25 فیصد حصص کی ملکیت حکومتی کنٹرول میں ہے۔ اسی بینک کے ذریعے انہوں نے بنگلہ دیش کے اندر غربت ختم کرنے کی مہم کے دوران مائیکرو فنانسنگ کے عملی تصور کو پیش کیا تھا۔ سن 2006میں ان کو اس معاشی کارنامے پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امتیاز احمد