1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مختاراں مائی کیس : عدالتی اپیل مسترد

22 اپریل 2011

پاکستان کے صوبے پنجاب میں پنچائت کے حکم پر اجتماعی زیادتی کانشانہ بننے والی مختاراں مائی کے مقدمے میں ایک کے سوا باقی تمام ملزمان کی سپریم کورٹ سے بریت کے فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/112ct
تصویر: AP

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق انہیں مختاراں مائی کے تحفظ سے متعلق تشویش لاحق ہے اور اس بارے میں حکومت پاکستان کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ادھر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی نو منتخب سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ مردوں کے زیرتسلط رہنے والی خواتین کے لیے یہ عدالتی فیصلہ ایک بڑا دھچکا تھا۔

پاکستان میں خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن نے بھی عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کمیشن کی رکن ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی سے معاشرتی استحصال کا شکار مختاراں مائی جیسی کئی خواتین کی عزت و زندگیوں کو مزید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’آج بھی جرگے خواتین کے ساتھ ایسا ہی کر رہے ہیں اور میں سمجھتی ہوں عدالت کے فیصلے سے جرگوں اور ان لوگوں کو حوصلہ ملے گا جو عورتوں کے خلاف اس قسم کے فیصلے سناتے ہیں۔ انہیں اس فیصلے سے یہ پیغام ملا ہے کہ آپ لوگوں کے درمیان سب کچھ کریں لیکن پھر آپ چھوٹ جائیں گے۔‘‘

Mukhtar Mai
تصویر: AP

مختاراں مائی نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے ایسا ہی فیصلہ دینا تھا تو انہیں کئی سال تک عدالتوں کے چکر لگا کر ذلیل کیوں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ رہا ہونے والے مجرموں سے ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ البتہ مختاراں مائی کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے ابھی تک اس عدالتی فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہی اس پر ردعمل کا اظہار کریں گے۔ تاہم سول سوسائٹی کے ہی ایک رکن اور معروف قانون دان جسٹس (ر)طارق محمود کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے ان محرکات کو تلاش کیا جائے جن کے باعث ملزمان کو رہائی ملی۔

Supreme Court in Islamabad, Pakistan
تصویر: AP Photo

انہوں نے کہا، ’’وہ جو خاتون یہ کہتی ہے کہ میرا بیان کچھ اور تھا اور وہاں پر لکھا کچھ اور گیا تھا، یہ وہ ایریاز ہیں جن پر قانون جاننے والے لوگوں، سول سوسائٹی اور حکومت کو توجہ دینی چاہیے تا کہ آئندہ ایسا نہ ہو سکے۔ عدالت نے فیصلہ فائل کی بنیاد پر دینا ہے۔ اگر کوئی چیز موجود نہیں ہے تو ہوا میں فیصلے نہیں ہو سکتے۔‘‘

سپریم کورٹ کے ایک اور سینئر وکیل اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ استغاثہ کی ناکامی کا الزام عدالت کے سر نہیں ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’اب اس مقدمے میں قانون شہادت کے بہت سے نقائص تھے جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کو ہائی کورٹ نے بری کر دیا اور ایک کے سواء باقی تمام کو سپریم کورٹ نے رہا کر دیا۔ دہشتگردی کے مقدمات بھی سامنے آ رہے ہیں اس میں باضابطہ تفتیش، پولیس کا کردار اور گواہوں کی عدم موجودگی یہ ساری چیزیں فیصلہ کرتی ہیں کہ عدالت کو مورد الزام ٹھہرانے کا طرز عمل درست ہے۔ کئی دفعہ پارلیمنٹ ہاؤس سے وزیروں اور مشیروں سے بھی سنتے ہیں کہ عدالتیں لوگوں کو بری کر دیتی ہیں۔ یہ بری کرنے کا عمل ریکارڈ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں ریکارڈ دیکھ کر لوگوں کو بری کرنے کا حکم دیتی ہیں۔

دوسری جانب وفاقی حکومت نے مختاراں مائی کو تحفظ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے قانونی معاونت مہیا کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے سابق وزیر اطلاعات شیری رحمن کی جانب سے جمعے کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں مختاراں مائی کے حوالے سے اٹھائے گئے نقطہ اعتراض پر بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم کے حکم پر پنجاب حکومت کو مختاراں مائی کے تحفظ کے لیے ہدایت کر دی ہے۔

رپورٹ:شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں