مذہب کا سیاسی استعمال: کئی حلقوں کو تشویش
13 ستمبر 2022پاکستان تحریک انصاف نے یہ الزام لگایا ہے کہ ن لیگ کی رہنما مریم نواز نے عمران خان کے خلاف توہین مذہب کا الزام لگایا ہے، جس سے ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بخشل تھلو نے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال کو برطانوی نو آبادیاتی سوچ کو مظہر قرار دیا اور اس پر سخت تشویش کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے سیاسی رہنماؤں کی سوچ اور طرز سیاست برطانوی نو آبادتی حکمرانوں کی طرح ہے، جنہوں نے مذہب کے نام پر برصغیر کے لوگوں میں نفرت کے بیج بوئے، تقسیم بنگال اور مذہبی نفرت کو ہوا دینے کے لیے ریاستی طاقت استعمال کی، جس سے اس خطے کو بہت نقصان ہوا اور پورے خطے میں مذہبی منافرت پھیلی۔‘‘
بخشل تھلو کے مطابق مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، ''جب کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہمارا تو ہمیشہ سے یہ موقف ہے مذہب اور ریاستی امور علیحدہ علیحدہ ہونے چاہیے اور مذہب کی ریاستی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
خطرناک رجحان
پاکستان میں توہین رسالت اور مذہب کے مقدمات کے ایک بڑے حصے کا تعلق ملک کے دیہی اور پسماندہ علاقوں سے ہے، جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق بہت سارے افراد نے ذاتی مفادات، معمولی جھگڑے یا جائیداد کے تنازعے پر بھی اس نوعیت کے مقدمات بنوائے ہیں۔ لیکن ملک میں گزشتہ کچھ برسوں سے بڑی اہم شخصیات پر بھی توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات لگانے کی کوشش کی گئی۔
ایم کیو ایم کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ اب اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس طرح کے الزامات لگا رہے ہیں اور مذہب کا سیاسی استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان اور مریم نواز دونوں ہی بہت پڑھے لکھے ہیں اور دونوں کا تعلق اشرافیہ سے ہے۔ اس کے باوجود یہ تاثر ہے کہ وہ مذہب کو سیاسی طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ توہین مذہب اور توہین رسالت کے استعمال سے سیاسی مقبولیت حاصل کرنے کا عمل بہت خطرناک ہے، جس سے ہمیں ہر صورت اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘
’ مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے‘
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے سے نہ صرف ملک کی اقلیتوں میں احساس بیگانگی بڑھا بلکہ اس سے ملک میں فرقہ واریت بھی بڑھی۔ کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال سے پہلے اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا، پھر عام مسلمان کو اور اب سیاست دان اس کی زد میں ہے۔ لہذا مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
کشور زہرہ کے مطابق اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بنگلہ دیش سے سیکھنا چاہیے، ''وہ ملک ہم سے بہت بعد میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا لیکن وہاں سیاست دانوں نے کسی حد تک یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ مذہب اور سیاست کو علحیدہ ہونا چاہیے۔ ہماری جماعت ایم کیو ایم میں کئی خامیاں ہوں گی لیکن ہم نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ مذہب کے نام پر سیاست نہیں کی جائیگی اور یہی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی کرنا چاہیے۔‘‘
مریم کی ٹویٹ
واضح رہے کہ مریم نواز نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا، ''دین کو اپنی گندی اور مکروہ سیاست اور جھوٹ کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنے والے شیطان سے اپنے ایمان اور ملک کو بچائیں۔‘‘ انہوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کا پرچم بھی اپلوڈ کیا تھا، جس پر عمران خان کی تقاریر کے کچھ جملے درج تھے اور ساتھ ہی قرآنی آیات کے تراجم بھی دیے گئے تھے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا، ''سیاسی اختلافات ایک طرف، اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔‘‘
پی ٹی آئی کا سخت ردعمل
مریم نواز کی اس ٹویٹ پرپی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ حکومت اور تحریک انصاف مریم نواز کے خلاف عدالت جائے گی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان کے خلاف سوشل میڈیا پر مریم نواز نے مہم چلوائی، جس میں عمران خان پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا، جس سے ان کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ مریم کی ٹویٹ کے بعد ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ چلایا گیا، جس میں عمران خان پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا۔ سابق وفاقی وزیر کا دعوی تھا کہ اس مہم میں پینسٹھ ہزار سے زائد ٹویٹس نے عمران خان کو ہدف تنقید بنایا۔
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا بلکہ مریم نواز کے خلاف توہین رسالت اور توہین مذہب کو ایک ہتھیار کے طور استعمال کرنے کے خلاف قانونی ایکشن لیا جائے گا کیونکہ اس سے پی ٹی آئی کے چیئرمین کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ مریم کی ٹویٹ کے بعد کچھ لوگوں نے مریم نواز شریف کو بھی ان کی ٹویٹ پر ہدف تنقید بنایا اور مذہب کو سیاست میں میں گھسیٹنے کے عمل کو نامناسب قرار دیا، جس سے کسی کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔