مذہبی آزادی کے بھارتی دعوے کی نفی، کشمیر کی بند جامع مسجد
17 دسمبر 2021بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر کی 600 سالہ قدیم اور عظیم الشان جامع مسجد اپنے شاندار مرکزی دروازے اور بلند وبالا میناروں کے باعث پورے علاقے میں سب سے نمایاں عمارت ہے۔اس مسجد میں 33 ہزار نمازی عبادت کرسکتے ہیں لیکن عیدین جیسے تہواروں کے موقع پر یہاں لاکھوں مسلمان جمع ہوتے ہیں اور مسجد کے ساتھ ہی قریبی سڑکیں اور گلیاں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔
لیکن بھارتی حکام اس مسجد کو مسائل پیدا کرنے والے مقام کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جو احتجاج اور جھڑپوں کا مرکز ہے اور متنازعہ کشمیر پر بھارت کی خودمختاری کو چیلنج کرتا ہے۔ دوسری جانب کشمیری مسلمانوں کے لیے یہ نماز جمعہ کی ادائیگی کا ایک مقدس مقام ہے اور ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ اپنے سیاسی حقوق کے لیے آواز بلندکر سکتے ہیں۔
مسلسل تکلیف دہ احساس
اس تلخ تنازعے کی وجہ سے سری نگر میں واقع یہ اہم ترین مسجد گذشتہ دو برسوں سے بند پڑی رہی۔ مسجد کے امام کو بھی تقریباً اس پوری مدت میں ان کے گھر میں مسلسل نظر بند رکھا گیا۔ جمعہ کے دن مسجد کے مرکزی دروازے کو تالے لگا کر ٹین کی چادروں سے بند کر دیا جاتا ہے۔ مسجد کی بندش نے کشمیریوں کے غم و غصے اور ناراضگی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
اس جامع مسجد میں تقریباً پانچ دہائیوں سے نماز اداکرنے والے ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم 65 سالہ بشیر احمد کہتے ہیں، ''مسجد کی بندش ایک مستقل تکلیف دہ احساس ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی چیز سے محروم ہوگئے ہیں۔‘‘
خبر رساں ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کے بار بار پوچھنے کے باوجود بھارتی حکام نے مسجد پر پابندیوں کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ ماضی میں حکام نے کہا تھا کہ حکومت کو مسجد کو بند کرنے پر اس لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ اس کی انتظامیہ کمیٹی مسجد کے احاطے میں بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے میں ناکام رہی تھی۔
مسجد بند رکھنے کی دلیل ' مضحکہ خیز'
چھ صدی پرانی اس جامع مسجد کو بند کرنے کی کارروائی سن 2019 میں اس وقت شروع ہو ئی جب بھارت سرکار نے اسی سال اگست میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کر کے وادی میں سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
گذشتہ دو برسوں کے دوران علاقے کی کئی دیگر مساجد اورخانقاہوں کو بھی سکیورٹی کارروائیوں اور پھر کورونا کی وبا کے سبب مہینوں بند رکھا گیا لیکن اب ان میں سے بعض میں مذہبی عبادات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
حکام نے تاہم سری نگر کی جامع مسجد میں جمعے کی اہم نماز کی اجازت ابھی تک نہیں دی ہے کیونکہ نماز جمعہ میں دسیوں ہزار افراد جمع ہوتے ہیں۔ حکام نے البتہ ہفتے کے بقیہ چھ دنوں میں معمول کی نمازوں کی اجازت دے دی ہے لیکن یہ اجازت بھی محدود تعداد میں نمازیوں کے لیے ہے۔
مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے ایک عہدیدار الطاف احمد بھٹ کا کہنا ہے، ''یہ وہ مرکزی مسجد ہے جہاں ہمارے آبا ؤاجداد، علما اور روحانی اساتذہ نے صدیوں سے عبادتیں اور نمازیں ادا کی ہیں۔‘‘ انہوں نے بھارتی حکام کی جانب سے پابندی کے حوالے سے پیش کی جانے والی وجوہات کو ‘'مضحکہ خیز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو متاثر کرنے والے سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بات چیت کسی بھی مسجد کا بنیادی مذہبی کردار ہے۔
دردناک یادیں
جامع مسجد بنیادی طور پر جمعے کی اجتماعی نماز اور خصوصی تہواروں کے موقع پر نماز اورعبادت کے لیے مخصوص ہے۔ روزانہ کی فرض نمازیں عموماً محلے کی چھوٹی مساجد میں ادا کی جاتی ہیں۔
کشمیر کے مسلمانوں کے لیے مسجد کی بندش ماضی کی دردناک یادیں لے کر آئی ہے۔ سن 1819 میں سکھ حکمرانوں نے اسے 21 سال کے لیے بند کر دیا تھا۔ گذشتہ 15 سالوں سے بھارتی حکومتوں کی طرف سے یہ متواتر وقتاً فوقتاً پابندیوں اور لاک ڈاؤنز کا شکار رہی ہے۔
لیکن سن 1947میں برطانوی نو آبادیات سے آزادی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان اس خطے کی تقسیم کے بعد سے موجودہ پابندیاں سب سے زیادہ سخت ہیں۔ دونوں ملک اس خطے پر اپنے اپنے دعوے کرتے ہیں۔
سن 1989میں کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کے آغازکے بعد سے بھارتی سکیورٹی فورسیز کی کارروائیاں بھی تیز ہوگئیں۔ بھارت مخالف مظاہروں میں اضافہ ہوا اور بھارتی فوجیوں اور مظاہرین کے درمیان ہلاکت خیز جھڑپیں بھی ہوتی رہیں۔ بھارت کشمیر میں عسکریت پسندی کے لیے پاکستان کو موردالزام ٹھہراتا ہے جبکہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
جامع مسجد مظاہروں کا مرکز
بھارتی فورسز نے تقریباً دس برس قبل کشمیریوں کی ''بغاوت ‘‘ کوبڑی حد تک کچل دیا لیکن ''آزادی‘‘کا مطالبہ کشمیری نفسیات میں پیوست ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران مسلح جدوجہد کی جگہ غیر مسلح مظاہروں نے لے لی۔ ہزاروں کشمیری شہری بھارتی حکومت کے خلاف اکثر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور پتھراؤ کرنے والے مظاہرین اور بھارتی فوج کے درمیان تصادم کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ سری نگر کے قلب میں واقع جامع مسجد اور اس کے آس پاس کے علاقے ایسے مظاہروں کا مرکز بن کر ابھرے ہیں۔
سری نگر کی جامع مسجد میں دیے جانے والے خطبات اکثر بھارت مخالف جذبات پر مبنی ہوتے تھے جہاں علیحدگی پسند رہنماؤں میں سے ایک میر واعظ عمر فاروق اور خطے کے سرکردہ مذہبی رہنما کشمیر کی سیاسی جدوجہد کو اجاگر کرنے والے شعلہ انگیز تقریریں کرتے تھے۔
بھارتی حکام نے اس کی وجہ سے طویل مدت تک مسجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی لگا دی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسجد کو 2008 ء ، 2010 ء اور 2016 ء میں کم از کم 250 دنوں کے لیے بند رکھا گیا تھا۔
مودی کے اقتدار میں آنے پر سختی میں اضافہ
سن 2014 میں وزیراعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے اور 2019 ء میں بھاری اکثریت سے دوبارہ انتخابات جیتنے کے بعد یہاں مسلح تنازعہ پھر شدت اختیار کر گیا۔ نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیری علیحدگی پسندوں کے خلاف اپنا موقف سخت کردیا جس نے کشمیر کے مسلمانوں میں مایوسی کو مزید گہرا کر دیا۔ اس صورت حال نے کشمیر میں عسکریت پسندی کی نئی لہر کو جنم دیا جہاں مسلح باغی بھارت کی حکمرانی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ بندوق کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی موثر استعمال کررہے ہیں۔ بھارت نے بھی اس کا انتہائی سختی سے جواب دیا ہے۔
مذہب پر عمل کرنے کی آزادی بھارتی آئین کا جز ہے۔ بھارت کا آئین تمام شہریوں کو مذہب کی پیروی اور آزادی سے عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن کشمیر میں موجودہ سکیورٹی کارروائیوں سے قبل بھی ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارت کے مسلمانوں کے حالات ابتر ہو چکے ہیں۔
کشمیر میں سب سے زیادہ قابل احترام مسجد پر پابندی نے ان خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
’ضرب ِ کاری‘
کشمیر کے شاعر اور مورخ ظریف احمد ظریف کہتے ہیں۔ ''جامعہ مسجد کشمیری مسلمانوں کے عقیدے کی روح کی نمائندگی کرتی ہے اور تقریباً چھ صدیاں قبل اس کی بنیاد کے بعد س ہی یہ سماجی اور سیاسی حقوق کے مطالبات کا مرکز رہی ہے۔ اس کی بندش ہمارے ایمان پر کاری ضرب ہے۔‘‘
رمضان کے آخری عشرے کے دوران بھی پچھلے دو سالوں سے یہاں اعتکاف اور عبادات پر پابندی ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندی ان کی مذہبی آزادی کے آئینی حق کے خلاف ہے۔
احمد نامی نمازی نے کہا کہ انہوں نے اتنی طویل مدت تک اس مسجد کو کبھی بند اور ویران نہیں دیکھا۔ احمد کا کہنا تھا، '' میں احساس محرومی کا شکار ہوں۔ ہمیں انتہائی روحانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
بہت سے کشمیری مسلمان سمجھتے ہیں کہ نئی دہلی کی حکومت امن وقانون کے نام پر ان کی مذہبی آزادی کو سلب کر رہی ہے جبکہ وہ یہاں ہندو یاترا کو فروغ اور اس کی سرپرستی کر رہی ہے۔ امرناتھ یاترا تقریباً دو ماہ تک جاری رہتی ہے جہاں بھارت بھر سے لاکھوں یاتری کشمیر پہنچتے ہیں۔ حالانکہ کورونا کی وبا کی وجہ سے یہ گذشتہ دو برسوں سے منسوخ ہے۔
گذشتہ جمعے کے روز بھی یہ مسجد بند رہی۔ ویران جامع مسجد کے قریب بھارتی سیاح خار دار تاروں سے گھرے اور اس کے مقفل مرکزی دروازے کے پس منظر میں سیلفیاں لینے میں مصروف تھے اور کشمیری خاموشی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔
ج ا/ ک م (ایسوسی ایٹیڈ پریس)