1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرد اور خواتین ایک سے کام نہیں کر سکتے، ترک صدر ایردوآن

عصمت جبیں24 نومبر 2014

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ مرد اور خواتین آپس میں برابر نہیں ہیں۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ترکی میں نسوانیت کے حامی حلقوں پر سخت تنقید بھی کی، جو ترک صدر کے دعوے کے مطابق مامتا کے نظریے کو مسترد کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DsHc
رجب طیب ایردوآنتصویر: picture-alliance/dpa

میڈیا رپورٹوں کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن نے یہ باتیں خواتین کے لیے انصاف کے موضوع پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ ترکی میں موجودہ صدر اور ملکی حکومت کا تعلق اسلام کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ایک ہی سیاسی جماعت سے ہے۔ اسلامی احکامات پر عمل کرنے والے ایردوآن صدر بننے سے پہلے طویل عرصے تک ملکی وزیر اعظم رہے تھے۔

Türkei: Politikerinnen wollen im Parlament ein Kopftuch tragen
’’آپ یہ بات حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والوں کو نہیں سمجھا سکتے، کیونکہ وہ مامتا کے نظریے کو تسلیم نہیں کرتے‘‘تصویر: Sean Gallup/Getty Images

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ استنبول میں ایک کانفرنس سے اپنے خطاب میں صدر ایردوآن نے آج پیر کے روز کہا کہ مردوں اور خواتین کے درمیان حیاتیاتی فرق کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اپنی زندگی میں دونوں ایک ہی طرح کے فرائض انجام نہیں دے سکتے۔

رجب طیب ایردوآن کانفرنس کے جن شرکاء سے خطاب کر رہے تھے، ان میں ان کی اپنی بیٹی سمیہ بھی شامل تھی۔ ایردوآن نے کہا، ’’ہمارے مذہب اسلام نے معاشرے میں خواتین کے لیے ایک پوزیشن واضح کر دی ہے، اس کا تعلق مامتا سے ہے۔‘‘

رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ کچھ لوگ یہ بات سمجھ سکتے ہیں لیکن کچھ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ’’آپ یہ بات حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والوں کو نہیں سمجھا سکتے، کیونکہ وہ مامتا کے نظریے کو تسلیم نہیں کرتے۔‘‘

ترک صدر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’میں اپنی والدہ کے پاؤں چومتا تھا۔ مجھے ان میں سے جنت کی خوشبو آتی تھی۔ وہ مجھے خاموشی سے دیکھتی تھیں اور کبھی کبھی رو پڑتی تھیں۔ ماں کی مامتا بالکل مختلف شے ہے۔‘‘

Istanbul Studentinnen mit Kopftuch
مردوں اور خواتین کے ساتھ بالکل ایک سا برتاؤ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ایسا کرنا ’انسانی فطرت کے خلاف‘ ہو گاتصویر: Hocine Zaourar/AFP/Getty Images

رجب طیب ایردوآن نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ مردوں اور خواتین کے ساتھ بالکل ایک سا برتاؤ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ایسا کرنا ’انسانی فطرت کے خلاف‘ ہو گا۔ انہوں نے کہا، ’’خواتین کا کردار، عادتیں اور جسمانی ساخت مختلف ہوتے ہیں۔ آپ کسی ایسی ماں کو، جو اپنے بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہو، کسی مرد کے برابر کھڑا نہیں کر سکتے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’آپ خواتین کو ہر وہ کام کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتے، جو مرد کر سکتے ہیں، جیسا کہ کمیونسٹ نظام والی حکومتوں میں دیکھنے میں آتا تھا۔ آپ خواتین کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر جا کر زمین کھودنا شروع کر دیں۔ یہ ان کی نازک فطرت کے منافی ہے۔‘‘

یہ بیان دیتے ہوئے رجب طیب ایردوآن بظاہر دوسری عالمی جنگ کے دوران اور بعد کے برسوں میں سوویت یونین اور دیگر کمیونسٹ ریاستوں میں عام نظر آنے والے ان حالات کا حوالہ دے رہے تھے کہ تب خواتین کو فیکٹریوں اور دیگر شعبوں میں اسی طرح کا بھاری جسمانی کام کرنے کے لیے کہا جاتا تھا، جیسا کہ مرد کرتے تھے۔

ترکی میں ایردوآن کی اسلامی نظریات کی حامل سیاسی جماعت پر اس کے ناقدین کی طرف سے طویل عرصے سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ترک معاشرے کے سیکولر اصولوں کا خاتمہ چاہتی ہے اور اس کی مبینہ طور پر یہ کوشش بھی ہے کہ ترکی میں خواتین کے شہری حقوق کو محدود کر دیا جائے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید