مریم نواز پنجاب حکومت کیسے چلا رہی ہیں؟
20 مارچ 2024مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی روایتی مقبولیت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنی صوبائی حکومت کی کامیابی کے لیے پورا زور لگا رہی ہے لیکن وزیر اعلی مریم نواز کی سربراہی میں اس ٹاسک کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں ابھی اس سلسلے میں قطعی اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔
پنجاب حکومت کی کامیابی مسلم لیگ ن کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ممبر قومی اسمبلی میاں محمد نواز شریف اپنی 'خود ساختہ تنہائی‘ ختم کر کے منظر عام پر آ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی صاحبزادی مریم نواز شریف کے ساتھ پنجاب حکومت کے اعلی سطحی اجلاسوں کی صدارت کرنا شروع کر دی ہے اور وہ براہ راست بیوروکریسی کو بھی ہدایات دے رہے ہیں۔
نواز شریف کی 'مداخلت‘ پر سوالات
ماضی میں جب نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے ساتھ ایسے اجلاسوں میں بیٹھا کرتے تھے تب تو وہ پاکستان کے وزیراعظم ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ان کی پنجاب حکومت میں ''مداخلت‘‘ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے مخالف حلقے اس بات پر بھی اعتراض کر رہے ہیں کہ رمضان پیکج کے تحت دیے جانے والے راشن کے تھیلوں پر میاں نواز شریف کی تصویر کیوں چھاپی گئی ہے اس پر وزیر اعلی مریم نواز کا موقف ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت ہے۔
پنجاب حکومت کی کارکردگی
پنجاب حکومت کی کارکردگی کے بارے میں حکومت اور حزب اختلاف کی طرف سے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا رمضان پیکج دیا ہے۔ مریم نواز رمضان بازاروں، جیلوں اور ہسپتالوں میں خود جا کر حالات کا جائزہ لے رہی ہیں، کسانوں کے لیے کسان کارڈ جاری کرنے، نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دینے، طلبا کو آسان قسطوں پر موٹرسائیکلیں فراہم کرنے، کاشتکاروں کو سولر پینل دینے، تمام اضلاح میں غریبوں کو ماڈل گھر بنا کر دینے، صوبے میں صٖفائی کے نظام کو بہتر بنانے اور کئی نئے شہروں میں میٹرو بس سروس شروع کرنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔
یہ ڈرامے بازی ہے، شوکت بسرا
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت بسرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ سب اعلانات سستی شہرت کے حصول کے لیے ہیں۔ صوبے میں مالیاتی بحران ہے تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو اعلان کردہ منصوبوں کے لیے رقم کہاں سے لائی جائے گی، ''ہمارے پرامن احتجاج کرنے والے کارکنوں پر مریم دور میں دہشت گردی کے مقدمے بن رہے ہیں، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ یہ ایک جعلی حکومت ہے ان کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ یہ کبھی بھی ڈیلیور نہیں کر سکیں گے۔ یہ صرف تخت لاہور بچانے کے لیے ڈرامے بازی کر رہے ہیں؟‘‘
لوگوں کی شکایات
نجمہ نامی ایک گھریلو خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امداد دینے والے ٹرک آتے ہیں طویل لائنوں میں کافی انتظار کے بعد انہیں یہ کہہ کر امداد دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے کہ ان کا نام فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ایک اور خاتون فردوس نے بتایا کہ بے نظیر سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی امداد میں سے بھی عملہ دو ہزار روپے خود رکھ لیتا ہے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
ماہ نور نامی ایک خاتون نے بتایا کہ حکومتی نرخوں پر ملنے والی اشیاء کی کوالٹی ٹھیک نہیں ہوتی اس لیے انہیں دوسری جگہوں سے راشن خریدنا پڑ رہا ہے۔محمد اکرم نامی ایک نوجوان نے کہا کہ غریبوں تک امداد اسی تیزی سے پہنچائی جانی چاہیے، جتنی تیزی سے حسن نواز اور حسین نواز کے وارنٹ گرفتاری معطل ہوئے ہیں۔
مشکلات بھی زیادہ۔۔ توقعات بھی زیادہ
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مریم نواز کی کابینہ میں زیادہ تر لوگ نئے ہیں اس لیے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کی کابینہ میں رانا ثنا اللہ اور ندیم کامران جیسے سینیئر پارلیمنٹیرین بھی نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ایک سو سے زائد ارکان والی مضبوط اپوزیشن بھی پنجاب حکومت کے لیے ایک چیلنج ہو سکتی ہے۔ حکومت مہنگائی کو کم کر دینے کی دعویدار ہے لیکن عوامی حلقے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ مریم نواز اس لیے کامیاب ہو جائیں گی کہ مسلم لیگ ن کے پاس پنجاب کا بیس کیمپ بچانے کا شاید یہ آخری چانس ہے، ''اس جماعت کی مقبولیت کو دو ہزار اٹھارہ اور دو ہزار چوبیس میں پی ٹی آئی نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔
اب نواز شریف کی رہنمائی بھی انہیں میسر ہے، وزیر اعظم بھی مریم کے چچا ہیں۔ بیوروکریسی میں بھی ان کا دھڑا موجود ہے۔ اس لیے زیادہ توقع یہی ہے کہ مریم کامیاب ہوں گی۔‘‘
مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلی مرتبہ محسوس ہو رہا ہے کہ پنجاب کا کوئی والی وارث ہے۔ ان کے بقول پنجاب حکومت دستیاب وسائل کو اچھی حکمت عملی سے استعمال کرکے بہتر نتائج دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ عثمان بزدار کے بگاڑ کو صوبے میں درست کرنے پر بھی مریم نواز کو توانائیاں لگانی پڑ رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے شوکت بسرا کا خیال ہے کہ مریم نواز کے پاس نہ وژن، نہ ٹیم اور نہ ہی مطلوبہ وسائل ہیں، ''وہ ہمارے دور میں جاری کیے گئے ہیلتھ کارڈ کا دوبارہ اجرا کرنے جا رہی ہیں اور ہمارے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے پاس اخلاقی ساکھ نہیں ہے، ان کی ماضی کی کرپشن بے نقاب ہو چکی ہے، پاکستان کو اشرافیہ کے بچوں کے لیے تجربہ گاہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ عوام کے فیصلے کے سامنے سرنگوں ہونے سے ہی ملک آگے جا سکتا ہے۔‘‘
پنجاب میں خواتین کی حکومت
صوبے کی تاریخ میں غالباﹰ یہ پہلا موقع ہے کہ اہم وزارتوں پر خواتین کو تعینات کیا گیا ہے۔ مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ، مریم اورنگزیب سینیئر وزیر اور عظمی بخاری صوبائی وزیر اطلاعات ہیں۔ وزیراعلی پنجاب نے صائمہ فاروق کو اپنی پرسنل سیکریٹری مقرر کیا ہے۔ لاہور کی ڈپٹی کمشنر بھی ایک خاتون ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت کے کئی اہم عہدوں پر خواتین کو مقرر کیا گیا ہے۔