پاکستانی صوبہ پنجاب میں مریم نواز کیسی وزیر اعلیٰ ہوں گی؟
25 فروری 2024کئی ماہرین یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ آیا نئے ہائبرڈ نظام میں مریم نواز کو 'عثمان بزدار‘ بن کر حکومت کرنا پڑے گی؟ اس سوال کے جواب میں مختلف لوگوں کی آراء مختلف ہو سکتی ہیں لیکن اس بات پر بہت سے تجزیہ کار متفق ہیں کہ مریم نواز کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کوئی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہو گی۔
پنجاب کا نوجوان ووٹر جس نے دھڑے اور برادری کی روایتی سیاست کو مسترد کر دیا
پنجاب اسمبلی میں کم از کم مطلوبہ تعداد سے کہیں زیادہ ارکان کی حمایت ملنے کے بعد اب پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم نواز شریف کے صوبائی وزیر اعلیٰ بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔
پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ
مریم نواز پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی تاریخ میں پہلی خاتون سیاست دان ہوں گی، جو وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوں گی۔ وہ اس منصب پر فائز ہونے والی شریف خاندان کی چوتھی شخصیت ہیں۔ ان سے پہلے ان کے والد میاں محمد نواز شریف، ان کے چچا میاں شہباز شریف اور ان کے کزن میاں حمزہ شہباز شریف بھی مختلف ادوار میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔
مریم نواز ایک ایسے وقت پر پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالیں گی، جب ان کے چچا شہباز شریف ایک بار پھر ملکی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے جا رہے ہیں۔ مریم نواز کو خاندانی اور موروثی سیاست کے حوالے سے تنقید کا سامنا بھی ہے۔
نواز شریف کی ملکی سیاست میں پُر اعتماد لیکن ’محتاط‘ واپسی
مریم نواز شریف کا تعلق لاہور کے ایک صنعتی کاروباری گھرانے سے ہے۔ ان کی شادی خیبر پختونخوا کے علاقے مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق فوجی افسر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر سے ہوئی اور ان کے تین بچے ہیں۔ مریم نواز کو اچھا لباس زیب تن کرنے کا شوق ہے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد انہیں ان کی خوش لباسی کی وجہ سے بھی جانتی ہے۔ مریم نواز کی تعلیم کے حوالے سے کوئی واضح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کے بقول مریم نواز کا میرٹ کے بغیر لاہور کےایک کالج میں داخلے پر اصرار کرتے ہوئے دباؤ ڈلوانا اور کم نمبروں کے باوجود ان کا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ایجوکیشنل مائیگریشن کروا لینا ان کی شخصیت کے تذکرے کو اخبارات کی سرخیوں تک میں لانے کا باعث بنا تھا۔
مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر
مریم نواز کو ان کی پارٹی میں کئی سینئر شخصیات کی موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنایا گیا۔ کئی سیاسی تجزیہ کار چوہدری نثار اور شاہد خاقان عباسی سمیت ن لیگ کے کئی رہنماؤں کی پارٹی سے دوری کی ایک وجہ مریم نواز شریف کو بھی قرار دیتے رہے ہیں۔
مریم نواز کی وطن واپسی، فواد چودھری کا مزید ریمانڈ
مریم نواز 2013ء میں، جب ان کے والد نواز شریف ملکی وزیر اعظم تھے، وزیر اعظم کے یوتھ پروگرام کی سربراہ بھی رہیں لیکن پھر چند مہینوں بعد ہی انہیں ایک عدالتی کارروائی کے بعد اس عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ وہ ایک مقدمے میں جیل بھی جا چکی ہیں اور پانامہ پیپرز کے منظر عام پر آنے کے دنوں میں بھی ان کا نام ملکی اخبارات کی زینت بنتا رہا تھا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کب آئے گی؟
’چند سیاسی کامیابیاں تو ہیں‘
سینئر تجزیہ کار جاوید فاروقی نے اس سوال کے جواب میں کہ مریم نواز پنجاب کی کیسی وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گی، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سوال کا حتمی جواب جاننے کے لیے کچھ انتظار کرنا لازمی ہے۔
انہوں نے کہا، ''ان کے کریڈٹ پر کچھ سیاسی جدوجہد اور چند سیاسی کامیابیاں تو ہیں۔ لیکن ان کے پاس کوئی خاص انتظامی تجربہ نہیں ہے۔ وہ شہباز شریف کی طرح ایوان صنعت و تجارت کی سیاست کا حصہ بھی نہیں رہیں۔ انہیں کاروباری دنیا میں بھی سرگرم نہیں دیکھا گیا۔ مریم نواز کو اپنی کابینہ میں رانا ثنا اللہ اور ندیم کامران جیسے پرانے اور تجربہ کار لیگی رہنماؤں کا ساتھ بھی میسر نہیں ہو گا۔ انہیں ایک مضبوط حزب اختلاف کا سامنا ہو گا۔ ان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس بات پر بھی ہو گا کہ وہ کس طرح کے لوگ اپنی کابینہ اور کس طرح کے اعلیٰ افسر سرکاری عہدوں پر لاتی ہیں۔‘‘
’سیاست پاکستان میں، جوڑ توڑ لندن میں‘
جاوید فاروقی نے کہا، ''مریم نواز کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو بیوروکریسی میں مسلم لیگ ن کا ایک وفادار دھڑا دستیاب ہو گا، جو ان کو مشکلات سے بچانے میں معاون ہو گا۔ اس کے علاوہ انہیں نواز شریف کی رہنمائی اور گہری مشاورت بھی میسر ہو گی۔ لیکن مریم نواز ایک سخت گیر خاتون ہیں، جو اپنے مخالفین کے ساتھ مفاہمت یا مکالمت کی زیادہ عادی نہیں ہیں۔ یہ چیز ان کو ایک ختم نہ ہونے والی محاذ آرائی میں الجھا سکتی ہے۔‘‘
’نواز شریف کی اصل سیاسی وارث‘
سینئر صحافی سجاد میر سمجھتے ہیں کہ مریم نواز نے اپنے والد کو پاکستان لانے، ہزارہا شہریوں کو سیاسی جلسوں میں اپنی طرف متوجہ کرنے، ووٹروں کو ترغیب دلانے اور متحرک کرنے کے معاملے میں بھی کئی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کے مطابق مریم نواز کے وزیر اعلیٰ بننے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی ''سیاسی میراث کی اصل وارث‘‘ اب وہی ہوں گی نواز شریف کا ''پولیٹیکل کیپیٹل‘‘ انہیں ہی سنبھالنا ہوگا۔
انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے زور پکڑتے مطالبات
دوسری طرف سینئر تجزیہ کار حبیب اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مریم نواز کی حکومت ''فارم سینتالیس‘‘ پر کھڑی ہے، اس لیے اس کی اخلاقی اور سیاسی ساکھ بہت کم ہو گی۔ ان کے بقول مریم نواز اپنی طاقت سے اس عہدے پر نہیں پہنچ رہیں بلکہ ان کو وزارت اعلیٰ تک پہنچانے میں کئی طرح کی کوششیں کارفرما رہی ہیں۔
وزارت عظمی کے لیے نواز شریف کی عدم نامزدگی: عوامل کیا ہیں؟
حبیب اکرم کے بقول، ''ان عوامل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مریم نواز کے پاس اسمبلی میں سیٹیں تو کافی ہیں لیکن عوام میں ان کی مقبولیت بہت زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے انہیں مضبوط اپوزیشن کے مقابلے میں ڈٹے رہنے کے لیے مقتدر حلقوں کا تعاون درکار ہو گا۔ ان کے پاس اپنی مرضی کرنے کے امکانات کم ہوں گے۔ ہائبرڈ قسم کی حکومتی صورت حال میں اگر ان کو زیادہ مصالحت کرنا پڑی، تو یہ بھی ممکن ہے کہ حالات ان کو ایک بہت بہتر قسم کے عثمان بردار کی طرح کا وزیر اعلیٰ بنا دیں۔‘‘