مسلمان دوکاندار پر توہین مذہب کے الزامات عائد
21 جون 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے پاکستانی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ صوبہ سندھ کے شہر ٹنڈو آدم کے ایک دوکاندر جہانزیب خالصخیلی پر توہین مذہب کے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔ جہانزیب کو اختتام ہفتہ پر گرفتار کیا تھا۔
مقامی پولیس کے سربراہ آغا شمشاد علی نے ڈی پی اے کو بتایا کہ ملزم اپنی دوکان پر ایسے جوتے فروخت کر رہا تھا، جن پر ہندوؤں کی مقدس تحریر ’اوم‘ کندہ تھی۔
شممشاد علی کے بقول مقامی ہندو آبادی کی طرف سے شکایت پر پولیس نے کارروائی کی اور ملزم کی دوکان سے ایسے جوتے بھی برآمد کر لیے گئے، جن پر اوم کی تحریر کندہ تھی۔
مقامی میڈیا نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ جہانزیب پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے۔ ملزم کا کہنا ہے کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ جوتوں پر کندہ یہ علامت جرم ہے۔
جہانزیب نے پولیس کو بتایا ہے کہ اس نے یہ جوتے لاہور سے منگوائے تھے جبکہ وہ صرف انہیں فروخت کر رہا تھا۔
دوسری طرف مقامی ہندو کمیونٹی کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ماضی میں بھی جہانزیب اس طرح کے جوتے فروخت کرتا رہا ہے اور کئی برسوں سے اسے کہا جا رہا تھا کہ وہ ایسے جوتے فروخت کرنا بند کر دے۔
پاکستان میں اسّی کی دہائی میں متعارف کرائے گئے توہین مذہب کے قوانین کے تحت پیغمبر اسلام، اسلام، قرآن اور دیگر مذاہب کی بے حرمتی پر موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔
جہانزیب کے کیس کے حوالے سے پولیس نے بتایا ہے کہ اگر اس پر جرم ثابت ہو گیا تو اسے بھاری جرمانے کے ساتھ دس سال تک کی قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔
یس کروڑ کی آبادی کے حامل پاکستان میں توہینِ رسالت ایک حساس موضوع ہے، جہاں غیر مصدقہ الزامات کے بعد بھی پُر تشدد واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر ملزمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔
ناقدین کا، جن میں یورپی حکومتیں بھی شامل ہیں، کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر ذاتی رنجشوں کا بدلہ لینے کے لیے توہینِ مذہب کے قوانین کو غلط اور ناجائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔