مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب کے مہاجرین کے لیے بھارتی شہریت
8 جنوری 2019بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں ہزاروں افراد اُس احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئے، جو علاقے کے مختلف اقلیتی گروپوں کو بھارتی شہریت دینے کے خلاف تھا۔ بھارتی شہریت حاصل کرنے والے اقلیتی گروپوں میں مسلمان تارکین وطن کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے آسام کے مختلف اضلاع اور تحصیلوں میں بھی لوگوں نے مظاہروں میں شرکت کی۔
جن افراد کو بھارتی حکومت کی اس قانون سازی کے تحت شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اُن میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو، عیسائی اور سکھ افراد بھی شامل ہیں۔ یہ افراد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کر کے بھارت منتقل ہوئے ہیں۔ ان تارکین وطن کو بھارت میں قیام کرتے ہوئے چھ برس سے زائد عرصہ بھی ہو چکا ہے۔
اس قانونی مسودے کی آسام میں شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ مظاہرین نے اپنے احتجاج کے دوران اس قانونی مسودے کی ہزاروں نقول کو نذرِ آتش بھی کیا۔ شہریت دینے کی سب سے زیادہ مخالف آسام میں کی جا رہی ہے، جہاں کے لوگوں کا موقف ہے کہ ان تاریکن وطن کی وجہ سے مقامی افراد میں بیروزگاری پھیل رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ غیرملکی لوگ اُن کی زمینوں پر بھی قابض ہو گئے ہیں۔
پیر سات جنوری کے مظاہرے میں شریک ایک طلبہ تنظیم کے جنرل سیکرٹری پالاس چانگمائی کا کہنا تھا کہ ابھی مجوزہ قانون کی نقول کو جلانے کے علاوہ مختلف شہروں میں سیاہ جھنڈے لہرائے گئے ہیں اور اگر حکومت اس قانون سازی پر قائم رہتی ہے تو اگلی مرتبہ مزید سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
ناقدین نے اس بل کو امتیازی سلوک کا عکاس قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس مسودہٴ قانون میں سے مسلمانوں کو نکال کر بھارتیہ جنتا پارٹی حقیقت میں ہندو ووٹروں کو خوش کرنے کی کوشش میں ہے کیونکہ رواں برس عام پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بھارتی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق اس بل کو امکاناً منگل آٹھ جنوری کو پارلیمان میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
شمال مشرقی بھارتی ریاست آسام میں گزشتہ برس ایک رجسٹریشن دفتر بھی قائم کیا گیا تھا۔ ریاست میں مقیم تینتیس ملین افراد کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے ایسے ثبوت فراہم کریں کہ وہ سن 1971 سے قبل ریاست میں پہنچ کر مقیم ہوئے تھے۔ آسام میں نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں قائم سیاسی اتحاد ریاستی حکومت قائم کیے ہوئے ہے۔