'مشتبہ دہشت گردوں کو سی آئی اے کی دھمکیاں'
25 اگست 2009اُدھر امریکی اٹارنی جنرل نے محکمہ انصاف کی سفارشات پر مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف زیادتیوں کی تفتیش کے لئے ایک خصوصی استغاثہ مقرر کر دیا ہے۔
امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے وفاقی استغاثہ جان درھام کو تفتیشی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ ان کی جانب سے یہ فیصلہ 'سی آئی اے' کے تفتیش کاروں پر مقدمات قائم کئے جانے کی ان سفارشات کے بعد سامنے آیا ہے جو محکمہ انصاف نے افغانستان اور عراق میں قیدیوں سے معلومات کے حصول کے لئے دوران تفتیش بدترین تشدد سمیت دیگر غیرقانونی طریقے استعمال کرنے کے حوالے سے جاری کی ہیں۔
اُدھر امریکی صدر باراک اوباما نے زور دیا ہے کہ ماضی کے بجائے آنے والے دنوں کو دیکھنا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ تفتیش کاروں نے اس وقت کے قانون کے مطابق پوچھ گچھ کے طریقے اپنائے ہوں تو ان پر مقدمات قائم نہیں کئے جانے چاہئیں۔
سینئر ری پبلیکن سینیٹرز نے بھی ایرک ہولڈر کے نام ایک خط میں ان کے اس فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے دہشت گردوں سے تفتیش کرنے والوں پر مقدمات قائم کرنے کے لئے خصوصی استغاثہ کا تقرر مایوس کن ہے۔
تاہم اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ متنازعہ لیکن ذمہ دارانہ ہے۔
دوسری جانب 'سی آئی اے' کی جانب سے 2004 میں مرتب کی گئی ایک رپورٹ پر مبنی سرکاری دستاویز میں مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے حوالے سے کچھ نئے پہلو سامنے آئے ہیں۔ یہ دستاویز محکمہ انصاف نے جاری کی ہے جس کے مطابق 'سی آئی اے' کی خفیہ جیلوں میں تفتیش کاروں نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے مرکزی کردار خالد شیخ محمد کو دھمکی دی تھی کہ امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی مزید واقعہ پیش آیا تو اس کے بچوں کو قتل کر دیا جائے گا۔
اس دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایک اور مشتبہ دہشت گرد عبدالرحیم النشیری کو یہ کہہ کر دھمکایا گیا کہ اس نے تعاون نہ کیا تو اس کی والدہ سمیت رشتہ دار خواتین کو اس کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
خالد شیخ محمد کو 2006 تک سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں رکھا گیا۔ بعدازاں اسے امریکہ کے زیرانتظام کیوبا میں گوآنتاناموبے کے حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
سابق امریکی صدر جارج بش کی انتظامیہ مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف تشدد کی تردید کرتے ہوئے تفتیشی طریقہ کار کو قانونی قرار دیتی رہی ہے جن میں قیدیوں کے کھانے میں کمی، سونے کے کم مواقع اور واٹر بورڈنگ شامل رہی ہے۔
پیر کو اوباما انتظامیہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے لئے ایک نیا گروپ قائم کیا جا رہا ہے جس کی نگرانی 'سی آئی اے' کے بجائے 'ایف بی آئی' کے سپرد کی جائے گی اور یہ گروپ رائج ضوابط کے مطابق تفتیش کرے گا۔
خبررساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ 'سی آئی اے' کے تفتیش کاروں کے خلاف استغاثہ کا تقرر اوباما انتظامیہ کی مشکلات بڑھائے گا۔ ریپبلیکن جماعت الزام عائد کر سکتی ہے کہ باراک اوباما قومی سلامتی کے امور پر سنجیدہ نہیں جبکہ تفتیشی عمل کو محض تفتیش کاروں تک محدود رکھنے اور پالیسی سازوں کو اس میں شامل نہ کرنے پر لبرل حلقے ناراض ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ