مشرف کی رہائی، خفیہ ڈیل کا نتیجہ؟
7 نومبر 2013جنرل (ر)مشرف کو اپنے خلاف زیرِ التوا چار مقدمات میں سے آخری مقدمے میں بھی ضمانت کے بعد بدھ کو رہائی ملی تھی۔ جمعرات کو اسلام آباد انتظامیہ نے ان کے چک شہزاد میں واقع فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن بھی واپس لے لیا ہے۔
اسی دوران جنرل مشرف کی رہائی کے بعد ان کے پاکستان میں رہنے یا بیرون ملک جانے اور سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ملکی پارلیمنٹ میں بھی فوجی آمر کی رہائی اور اس سے جڑی خبروں کی باز گشت سنائی دیتی رہی۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ نواز شریف حکومت نے جنرل مشرف کو ایک مبینہ معاہدے کے تحت بیرون ملک بھجوانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ایاز سومرو کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ جس نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا وہی آمر کے ساتھ ڈیل کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا،
’’مشرف کے متاثرین میں نوازشریف بھی تھے اور ہم بھی، کیونکہ ہماری پارٹی کی قائد شہید ہوئی تھیں۔ لگتا ہے کہ میاں صاحب اور مشرف کے درمیان اچھی خاصی ڈیل ہو چکی ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہونے کی وجہ سے وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے۔
سپریم کورٹ کے وکیل جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کو اکبر بگٹی، بے نظیر بھٹو قتل کیس کے علاوہ ججوں کو زیر حراست رکھنے اور لال مسجد کے مقدمے میں ضمانت عدم ثبوتوں کی بنیاد پر ملی۔ انہوں نے کہا،’’ جب ایک آدمی کو آپ کسی مقدمے میں گرفتار کرتے ہیں اور پھر وہ اگر ضمانت کی درخواست دیتا ہے تو پھر استغاثہ کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ جناب ہم نے اس شخص کے خلاف یہ شواہد اکٹھے کیے ہیں۔ اگر وہ شواہد نہیں ہوں گے تو عدالتوں نے تو اس کو بری کرنا ہی ہے"۔
دوسری جانب حکومتی ارکان جنرل مشرف کے ساتھ کسی بھی کسی قسم کی ڈیل کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف آئین سے بغاوت جتنے سنگین مقدمے کی تحقیقات جاری ہیں اور وہ ملک چھوڑ کر فرار نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا،’’
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہدایت دی تھی۔ اُس ہدایت کی روشنی میں ایف آئی اے کی ایک کمیٹی بنی۔ اب ان کے پاس ایک مہینے کا اور وقت ہے اس کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ دینا ہے اور جب وہ آرٹیکل چھ کے تحت فیصلہ دیتے ہیں تو اس کے بعد تومشرف کا جانا محال ہو جائے گا‘‘۔
جنرل مشرف نے ابھی تک اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا ۔ تاہم ان کی جماعت کے بعض ارکان کا دعویٰ ہے کہ جنرل مشرف ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور ملکی سیاست میں بھی حصہ لیں گے۔ جنرل مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے رہنما اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل احمد رضا قصوری کا کہنا ہے،’’
جنرل مشرف تو کمانڈو رہے ہیں اور کمانڈوز کا تو نعرہ ہی ہے کہ غازی یا شہید، وہ انشاءاللہ عوام میں بھی جائیں گے۔ وہ پارٹی کو بھی فعال کریں گے۔ پارٹی کی تنظیم نو کر کے ایک مؤثر سیاسی قوت بنا کر پاکستان کی سیاست میں حصہ لیں گے‘‘۔
جنرل مشرف کے خلاف آئین سے بغاوت کا مقدمہ درج کرانے کے لیے درخواست دائر کرنے والے ایک وکیل شیخ احسن الدین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لیے سنجیدگی نہ دکھائی تو وہ دوبارہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔