مشرف کیس فیصلہ: مسلم لیگ نون خوش کیوں نہیں؟
20 دسمبر 2019اس کیس کے مختلف مراحل کے دوران پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما جنرل (ر) پرویز مشرف کو قانون کے شکنجے میں لانے کا کریڈٹ بھی لیتے رہے ہیں اور اب جبکہ سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف ملکی تاریخ کا اہم فیصلہ آچکا ہے، مسلم لیگ نون نے چپ سادھ لی ہے۔ ووٹ کو عزت دو اور آمریت کی مخالفت کے بیانیے والی جماعت کے لیڈر میڈیا کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر جشن اور بھنگڑوں کا اہتمام کرنے والے مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے اس فیصلے کے بعد کسی اطمینان کا اظہار کیا اور نہ ہی تنقیدی مہم کی شکار عدلیہ کی حمایت میں کوئی مؤثر بات کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی شہرت رکھنے والی ترجمان عظمٰی بخاری نے بھی اپنی تازہ پریس ریلیز میں پنجاب میں صحت اور تعلیم کی زبوں حالی پر اظہار خیال کیا ہے۔
سیاسی تاریخ کے اس اہم موڑ پر مسلم لیگ نون پس منظر میں کیوں چلی گئی ہے؟
پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار اور صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں مشرف کیس کے پس منظر کو دیکھنا ہوگا۔ ان کے بقول نواز حکومت کے 2013ء میں برسراقتدار آنے سے پہلے ہی سینٹ میں جنرل مشرف کے ٹرائل کی قرار دار منظور ہو چکی تھی، ''اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر ہوئی تھی جس میں مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے حوالے سے کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔ اس پر عدالت عظمی کی طرف سے ملنے والی ایک ہدایت کے بعد ہی مسلم لیگ نون مشرف کے ٹرائل پر تیار ہوئی تھی۔ یہ مقدمہ چلنے کے بعد بھی مسلم لیگ کی حکومت نے اس ضمن میں کوئی زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔‘‘
حامد میر بتاتے ہیں کہ ان دنوں عمران خان اپوزیشن میں ہوا کرتے تھے اور وہ نواز شریف کو طعنے دیا کرتے تھے کہ ان کی حکومت مشرف کا ٹرائل نہیں کر رہی ہے اور اس دور میں عارف علوی نے تو اس پر ایک ٹویٹ بھی کیا تھا۔ حامد میر کا مزید کہنا تھا، ''شہباز شریف، چوہدری نثار، مشاہد اللہ اور عبدالقادر بلوچ وغیرہ نے نواز شریف پر کافی دباؤ ڈالا کہ مشرف کو باہر جانے دیا جائے کیونکہ اس سے کشیدگی ختم ہو گی، اداروں سے مفاہمت کو فروغ ملے گا۔ اس پر 2016ء میں پرویز مشرف کو باہر جانے دیا گیا لیکن نواز شریف کی حکومت پھر بھی نہ بچ سکی۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا مزید کہنا تھا، ''پچھلے دو تین مہینوں میں مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کے لب و لہجے میں ایک واضح تبدیلی نوٹ کی جا رہی ہے۔ اب تو اطلاعات یہ ہیں کہ مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کو منہ نہ کھولنے کی ہدایت بھی مل چکی ہے۔ مسلم لیگ نون کی اس خاموشی کو پی ٹی آئی کے رہنما بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں کو بھی اس صورتحال کی سمجھ نہیں آ رہی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں حامد میر کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو بھی ان کی مرضی کے خلاف زبردستی چپ کرایا گیا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ اگر اپنے والد کا بھلا چاہتی ہیں تو زبان نہ کھولیں۔ ان کے مطابق مسلم لیگ نون کے چار رہنما اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ مسلم لیگ نون کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
حامد میر کے خیال میں مسلم لیگ نون کو اس کی خاموشی سے سیاسی نقصان ہو گا اور اس طرح پیدا ہونے والے خلا کو پاکستان پیپلز پارٹی اپنی سخت گیر پالیسی سے پر کرے گی۔ بلاول بھٹو کے بیانات سے بھی یہی بات سامنے آ رہی ہے۔
پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ کار طاہر ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بظاہر تو پاکستان میں ہر کوئی این آر او کی تردید کرتا پھرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان کا جی لندن میں آئس کریم کھانے اور وہاں کے میکڈونلڈ میں جانے کو کرے تو پھر آمریت کے خلاف جنگ نہیں لڑی جا سکتی: ''لگتا یوں ہے کہ شریف فیملی پاکستان کی سیاسی حقیقتوں کو اچھی طرح جان گئی ہے اور انہوں نے ووٹ کو عزت دو کا راستہ چھوڑ کر اس بیانیے کی قیمت وصول کر لی ہے۔ شاید اسی لیے ان کی آواز نہیں نکل رہی ہے۔‘‘
طاہر ملک کے مطابق، ''میں نے پاکستانی سیاست میں دیکھا ہے کہ لوگ مزاحمتی سیاست کرنے والے اور طاقتور کے سامنے ڈٹ جانے والے سیاست دانوں کا ہمیشہ ساتھ دیتے آئے ہیں۔ اس طرح ووٹروں نے آمریت کی باقیات کے مقابلے میں سٹینڈ لینے والے نواز شریف جیسے شخص کو بھی ووٹوں سے نوازا تھا۔ اب مریم نواز کی خاموشی اور مسلم لیگ نون کے لیڈروں کی بیرون ملک روانگی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مسلم لیگ نے وہ راستہ اپنا لیا ہے جو اس پارٹی کو کمزور کرے گا اور اس کی سیاسی ساکھ کو برباد کر کے رکھ دے گا۔‘‘
پاکستان کے ممتاز قانون دان بابر سہیل کہتے ہیں کہ اگر کشتی کمزور ہو، ہوا تیز ہو اور جانا بھی موجوں کے مخالف ہو تو ایسے منظر نامے میں اپنی بقا پہلی ترجیح بن جاتی ہے: ''نواز شریف کی ضمانت کی اپیل اٹھائیس دسمبر کو عدالت سننے والی ہے، نواز شریف کی بیرون ملک قیام کی مدت میں توسیع کا معاملہ بھی پنجاب حکومت کے سامنے آنے والا ہے۔ مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے پر بھی فیصلہ محفوظ کیا جا چکا ہے۔ شہباز شریف کی جائیدادوں کو ضبطی کا سامنا ہے۔ ان حالات میں اگر ادارے آپس میں لڑیں گے تو سیاسی لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ ایسے میں آ بیل مجھے مار والی پالیسی مسلم لیگ کو پسند نہیں ہے۔‘‘