’عمران خان نے اسلاموفوبیا کی وضاحت مغربی استدلال سے کی‘
28 ستمبر 2019انہوں نے اسلام کی بات کی، جس کے وہ پیروکار ہیں، مگر انہوں نے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے چارلس برونسن کی فلم 'ڈیٹھ وِش‘، مونٹی پائتھون اور دوسری عالمی جنگ میں جاپانی کامی کازی پائلٹوں کے حوالے بھی دیے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے، مشرق اور مغرب کے درمیان تعلق کو بظاہر بغیر کسی پریشانی یا مشکل کے دنیا کے سامنے واضح کیا۔ پاکستان کے روایتی لباس شلوار قمیض پر نیلے رنگ کا کوٹ پہنے خان نے دنیا کو یہ سمجھانے کی کامیاب کوشش کی کہ اسلاموفوبیا یا مذہب اسلام سے خوف کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اور یہ کہ مسلمان آخر کیوں پیغمبر اسلام کی ذات پر حملوں کے بارے میں اتنے زیادہ حساس ہیں۔
اور آخر میں عمران خان کا خطاب اپنی معراج پر پہنچا، ایک سیاستدان کی طرف سے مسلم اکثریتی بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھارتی کریک ڈاؤن پر سیاسی حملہ۔ تاہم یہاں تک پہنچنے سے قبل انہوں نے ایک ایسا مدعا بھی پیش کیا جو مسلمانوں کے لیے تو عام فہم ہے مگر ایک بین الاقوامی فورم پر یہ کسی حد تک غیر معمولی ہے، اور یہ تھا مذہب اسلام کا بھرپور دفاع، جو خاص طور پر مغربی معاشروں کی سوچ کو مدنظر رکھ کر پیش کیا گیا: ''یہ بات سمجھنا اہم ہے۔ رسول (محمد) ہمارے دلوں میں رہتے ہیں۔ جب ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے، جب ان کی تضحیک کی جاتی ہے تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ عمران خان کا مزید کہنا تھا، ''ہم انسان اس بات کو سمجھتے ہیں: دل کا درد ہماری طبعی تکلیف سے کہیں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔‘‘
پیغمبر اسلام کے بارے میں پاکستانی وزیر اعظم کے یہ الفاظ انسانی جذبات کی ترجمانی تھے۔ اسی طرح انہوں نے دہشت گردی، شدت پسندی اور خودکش حملوں کو عام طور پر اسلام یا مسلمانوں سے نتھی کرنے کے خلاف بھی اپنا استدلال پیش کیا۔
عمران خان کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان نے کامی کازی پائلٹوں کو بطور خودکش بمبار کے استعمال کیا: ''کسی نے مذہب کو الزام نہیں دیا۔‘‘ مگر نائن الیون کے حملوں کے بعد مسلم دنیا، خاص طور پر پاکستان اور بعض دیگر ممالک نے دیکھا کہ ان کو ان ہائی جیکرز کے اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جنہوں نے ورلڈ ٹریڈ سينٹر اور پینٹاگون کو نشانہ بنایا۔
خان کا کہنا تھا، ''خودکش حملوں اور اسلام کو مساوی ٹھہرایا گیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم رہنما نائن الیون حملوں کے بعد دنیا کو یہ بات باور کرانے میں ناکام رہے کہ ''کوئی بھی مذہب شدت پسندی کی تبلیغ نہیں کرتا۔‘‘ ان کے بقول اس کی بجائے مسلم رہنماؤں نے مغربی لباس زیب تن کرنا شروع کر دیا اور یہاں تک ایسے رہنما جو انگریزی نہیں بول سکتے، انہوں نے بھی انگریزی بولنا شروع کر دی، ''کیونکہ وہ اعتدال پسند لگنا چاہتے تھے۔‘‘
اس بات سے بچنے کے لیے کہ ان پر شدت پسندی کا لیبل لگے، وہ اعتدال پسند دکھنے کی کوشش کرنے میں لگ گئے، حالانکہ انہیں اس بات پر مستحکم موقف اختیار کرنا چاہیے تھا کہ 'ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی جسے شدت پسند اسلام کہا جائے۔‘
عمران خان کے مطابق وہ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ نیو یارک میں موجود ایک شخص یا کسی یورپی ملک کا کوئی فرد جس کے ذہن میں 'اسلام اور شدت پسندی ایک جیسی چیز ہوں، وہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی صورت میں کسی مسلمان کے ردعمل پر پریشان کیوں ہو جاتا ہے۔
عمران خان نے اپنی بات کی وضاحت کے لیے ایک ایسے موضوع کی بھی مثال دی جس پر بات کرنا یورپی ممالک میں ایک حساس معاملہ ہے اور وہ ہے ہولوکاسٹ یا یہودیوں کا قتل عام۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہولوکاسٹ کے معاملے کو بالکل درست حساسیت کے ساتھ موضوع گفتگو بنایا جاتا ہے کیونکہ یہ معاملہ یہودی کمیونٹی کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمارے پیغمبر کی شان میں گستاخی کو آزادی اظہار کے زمرے میں ڈال کر ہمیں تکلیف نہ دیں۔‘‘
عمران خان نے اپنے خطاب میں بھلے یہ جانتے بوجھتے کیا ہو یا نہیں، اہم پيغام يہ تھا کہ تکلیف اور غلط فہمیاں دنیا بھر میں ایک جیسی ہی چیزیں ہیں مگر انسان اپنے اپنے لحاظ سے ان کی توجیحات رکھتے ہیں۔
ا ب ا / ع س (ٹیڈ انتھونی، اے پی)