توہین مذہب کا غلط استعمال روکا جائے، متحدہ عرب امارات
25 جولائی 2019متحدہ عرب امارت نے زور دیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کی خاطر حکومتی سطح پر اقدامات کیے جانا چاہیں۔ یہ قوانین تقریباً سبھی مسلم ممالک کے آئین کا حصہ ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں بھی توہین مذہب کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ تاہم اس خلیجی ریاست نے ان قوانین کے غلط استعمال پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات تیسرا ایسا مسلم ملک ہے، جس نے توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کی خاطر ایک باقاعدہ وزارتی دستاویز پر دستخط کیے ہیں۔ دیگر دو ممالک میں البانیا اور کسووو شامل ہیں۔
رواں ماہ ہی واشنگٹن منعقدہ وزارتی سطح کی ایک کانفرنس میں اتفاق کیا گیا کہ مذہب کی آڑ میں تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ اس کانفرنس کے اعلامیے کے مطابق ریاست کو توہین مذہب کے غلط استعمال کو روکنے کی خاطر اقدامات کرنا چاہییں۔ متحدہ عرب امارات بھی اس دستاویز پر دستخط کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان میں بھی ناقدین کا کہنا ہے کہ کئی کیسز میں ذاتی دشمنیاں نکالنے کی خاطر ان قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب
جنوبی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور افریقہ کے کئی مسلم ممالک میں بھی توہین مذہب کا معاملہ انتہائی حساس ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے، جن میں نہ صرف اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بلکہ مسلمانوں پر بھی ایسے الزامات عائد کیے گئے۔ آسیہ بی بی کا کیس اس حوالے سے میڈیا میں کافی زیر بحث رہا۔
آسیہ بی بی کو رہائی تو مل گئی لیکن اس مسیحی خاتون کو ملک چھوڑنا پڑا۔ وجہ بتائی گئی کہ انہیں اور ان کے خاندان کو سلامتی سے متعلق خدشات تھے۔ اگرچہ ملکی سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزامات سے باعزت بری کیا لیکن اس حوالے سے عوامی غم وغصہ ٹھنڈا نہ ہو پایا۔
موریطانیہ میں عوامی غصہ
ایسی ہی ایک تازہ مثال افریقی ملک موریطانیہ کی بھی ہے، جہاں ایک بلاگر محمد الشیخ ولد امخیطیر نے ملکی سماجی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا تو انہیں بھی ایسے ہی الزامات کے تحت سزائے موت سنا دی گئی۔ اپنے ایک بلاگ میں انہوں نے لکھا کہ نسل پرستانہ امتیازی رویوں کو مذہبی تعلیمات سے قابل جواز نہیں بنانا چاہیے۔
ملکی سپریم کورٹ میں اپیل کے بعد امخیطیر کی سزائے موت ختم کر کے ان کی سزا کو دو سال کی قید میں تبدیل کر دیا گیا لیکن اس سزا کے مکمل ہونے کے بعد بھی وہ رہائی نہیں پا سکیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر انہیں آزاد کیا گیا تو نقص عامہ کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
امخیطیر کو سن دو ہزار چودہ میں سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ سن دو ہزار سترہ میں ان کی سزا دو سال قید میں بدل دی گئی تھی۔ ان کے وکیل کے مطابق قانونی لحاظ سے وہ اپنی سزا مکمل کر چکیں ہیں کیونکہ امخیطیر سن دو ہزار چودہ سے ہی پابند سلاسل ہیں۔ لاکھوں افراد مظاہرے کر چکے ہیں کہ امخیطیر کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جائے۔
عوامی معافی کا مطالبہ
موریطانیہ کے مذہبی رہنماؤں نے شرط رکھی تھی کہ امخیطیر عوامی معافی مانگیں۔ امخیطیر نہ صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بلکہ میڈیا پر بھی معافی مانگ چکے ہیں۔ لیکن مستقبل قریب میں بھی ان کی رہائی کے بارے میں کوئی حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
موریطانیہ کے صدر عبدالعزیز نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امخیطیر کو آزادی دینے پر حکومت کو سکیورٹی خدشات ہیں۔ انہوں نے امخیطیر کی ذاتی اور ملک کی سلامتی کے لیے ان کی قید کا دفاع کیا، ''ہم جانتے ہیں کہ قانونی لحاظ سے انہیں رہا کر دینا چاہیے لیکن سلامتی کے تحفظات کے تناظر میں ہم موریطانیہ کے چار ملین نفوس کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے‘‘۔
موریطانیہ کی حکومت کو خوف ہے کہ امخیطیر کی رہائی کے نتیجے میں ملکی سطح پر پرتشدد کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ عبدالعزیز اگست میں صدر کے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ ناقدین کے مطابق دو مرتبہ اقتدار سنبھالنے والے عبدالعزیز دراصل امخیطیر کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، جس کی وجہ سے ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچے۔