پانی کا کوزہ پھانسی کے پھندے تک پہنچا سکتا ہے
10 اکتوبر 201814 جون 2009 ء میں پاکستان کے صوبے پنجاب کے ڈسٹرکٹ ننکانہ صاحب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کٹاں والا میں جب ایک مسجد کے امام کے پاس آسیہ نورین ’آسیہ بی بی‘ کی شکایت درج کروائی گئی تو میرے خیال میں اُس وقت نہ تو آسیہ اور نہ ہی شکایت درج کروانے والی گاؤں کی ان چند خواتین کو یہ علم تھا کہ یہ معاملہ کیا شکل اختیار کر جائے گا؟
مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کے ایسا لگتا ہے کہ امام مسجد کو بھی نہ تو معاملے کی سنگینی نہ ہی اس کے دور رس نتائج کا زرا بھی احساس تھا۔ انہوں نے تو اپنا کردار ادا کرنا تھا، جسے بدقسمتی سے زیادہ تر پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی اکابرین اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ پہلا سوال یہاں پر جو اُبھرتا اور میرے فہم و ادراک پر ہتھوڑے برساتا ہے وہ یہ ہے کہ گاؤں کی دو چار خواتین مل کر اپنے ہی گاؤں کی ایک عورت کی شکایت لے کر جب امام صاحب کے پاس آئیں تو کیا امام صاحب کا فرض اُس وقت یہ نہیں بنتا تھا کہ وہ ان خواتین کے مابین مصالحت کی کوشش کرتے؟ شکایت کرنے والی خواتین مسلم عقیدے سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ جس کی شکایت کی گئی وہ خاتون کیتھولک مسیحیت کی پیروکار تھی۔ کیا مذہبی شخصیات کے فرائض میں یہ شامل نہیں کہ وہ امن، بھائی چارے، رواداری اور درگزر کرنے کا سبق دیں، معاشرے میں ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کام کریں۔ دین کا پرچار کرنے والوں کے لیے کیا انسانیت کی بھلائی اور امن کے فروغ سے زیادہ بھی کوئی اہم فریضہ ہو سکتا ہے؟ اگر وہ دین کی روح کو سمجھیں۔ ذات پات کی تفریق اور اچھوت سمجھ کر دیگر انسانوں کو معاشرے کا حقیر فرد جاننے جیسے فرسودہ رواج کو ختم کرنے کا پیغام لانے والے مذہب کو ماننے کا دعویٰ کرنے والوں سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ پانی پینے کے برتن کے استعمال پر اتنا بڑا تنازعہ کیوں کر کھڑا ہوا؟
آسیہ بی بی کا جرم کیا تھا؟
روایت کے مطابق آسیہ بی بی سمیت یہ تمام خواتین کٹاں والا میں ایک کھیت میں کام کرتی تھیں۔ ایک ایسے علاقے میں، جہاں محنت مزدوری کر کے گھر چلانا مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بھی روزمرہ زندگی کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔ مشقت کر کے بچوں کا پیٹ پالنے والی عورتوں کا ’دین ایمان‘ دو وقت کی روٹی ہوتی ہے، جس کے حصول کے لیے وہ معاشرتی نا انصافیوں، معاشرے کی دقیانوسی روایات اور پدر سری معاشرے کی اقدار سے نبرد آزما ہوتے ہوئے تمام تر دشواریاں جھیلنے کی عادی ہو جاتی ہیں۔ جب ایسی خاتون کو صرف اس بنیاد پر کہ وہ مسیحیت کی پیرو کار ہے اور اُس پیغمبر یعنی’حضرت عیسٰی‘ کو مانتی ہے، جنہیں مسلمان بھی پیغمبر مانتے ہیں، اُس قانونی شکنجے میں جکڑنے کی کوشش کی جائے، جس سے وہ نکل نہ سکے، تب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آسیہ بی بی پر الزام لگانے والی دیگر خواتین علم و شعور کے کس درجے پر ہیں؟ کیا انہیں ’’توہین رسالت‘‘ کے معنی و مفہوم بھی پتا ہیں؟
یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق کب، کہاں اور کن بنیادوں پر ہونا چاہیے؟ ان سوالات کا جواب نہ تو امام مسجد نہ ہی ایف آئی آر درج کرنے والے تھانے دار کے پاس ہے۔ اُس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ عدلیہ اور مقننہ بھی اس موضوع پر بحث کو شجر ممنوعہ سمجھتی ہے۔ مزید برآں امام مسجد خود گواہ بھی نہیں اور ان کے پاس شکایت درج کروانے والی خواتین کے بیانات بھی تضاد سے بھرپور ہیں۔ ان سب کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک عدالت کی طرف سے 2010ء میں آسیہ بی بی کو ’توہین رسالت‘ کے جرم کے ارتکاب میں سزائے موت سنا دی گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ مزدوری کے دوران آسیہ بی بی سمیت کام کرنے والی تمام خواتین کو پیاس محسوس ہوئی اور پانی لانے کے لیے آسیہ بی بی کو بھیجا گیا، وہاں موجود مسلم خواتین نے اس پر اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کے سبب آسیہ بی بی کو پانی کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے اور اُس گلاس سے پانی نہیں پینا چاہیے کیونکہ وہ غیر مسلم ہے۔ بظاہر اس پر بحث ہوئی اور مسلم خواتین کے متضاد بیانات سامنے آئے، جس میں سے کچھ میں یہ کہا گیا کہ بحث کے دوران آسیہ بی بی نے پیغمبر اسلام کے خلاف گستاخی کی ہے۔
مدو جزر اسلام کی عکاسی
جسے تاریخ کی تھوڑی بہت بھی سوجھ بوجھ ہوگی، وہ جانتا ہے کہ مولانا حالی نے اپنی شاہکار اور طویل ترین نظم ’مد و جزر اسلام‘ ، جسے ’مسدس حالی‘ کے عنوان سے بھی جانا جاتا ہے، میں انسانی تاریخ کے دور جاہلیہ کی منظر کشی کی ہے۔ لیکن آسیہ بی بی کیس اور اس جیسے دیگر واقعات جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اکیسویں صدی میں رونما ہو رہے ہیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ کیا ہم واقعی اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں؟
لب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یہ ہے صورتحال ہمارے معاشرے کی۔ یہاں اب تک بہت سے قوانین ایسے چلے آ رہے ہیں، جو برطانوی سامراجی دور میں بنائے گئے تھے۔ انہیں میں سے ایک ’بلاسفیمی لاء‘ بھی ہے۔ انیسویں صدی میں یہ قانون ملکہ وکٹوریا کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس قانون میں پاکستان کے آمر فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں ترمیم کی گئی اور اسے ’توہین رسالت‘ سے جوڑ دیا گیا۔ اگر یہ قانون اسلامی قوانین کا حصہ ہے تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا دنیا کی کوئی دوسری اسلامی ریاست ہے، جس میں ’بلاسفیمی لاء‘ اس شکل میں موجود ہے، جس میں یہ پاکستان میں نظر آ رہا ہے؟
کس سے منصفی چاہیں؟
آسیہ بی بی نے خود پر لگے ’توہین رسالت‘ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بارہا یہ بتانے کی کوشش کی کہ اس پر الزام عائد کرنے والی چند خواتین کے ساتھ اس کی فیملی کا کچھ پُرانا جھگڑا چل رہا تھا، جس کا بدلہ لیتے ہوئے اُنہوں نے اسے ایک ایسے کیس میں اندر کروانے کا فیصلہ کیا، جس میں اُسے سزائے موت تک ہو سکتی ہے۔ 2010 ء میں شیخوپورہ کی ایک عدالت نے آسیہ بی بی کو پھانسی کی سزا سنائی اور ساتھ ہی اسے جرمانے کی اچھی خاصی رقم بھی ادا کرنا پڑی۔ ہیومن رائیٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ’بلا سفیمی کیس‘ میں اب تک کسی کی بھی موت کی سزا پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے بلکہ ایسے مجرموں کو بہت طویل عرصے تک جیل میں بند رکھا جاتا ہے۔ 2014 ء تک آسیہ بی بی کے کیس کی سماعت کی اپیل پانچ مرتبہ ملتوی کی جا چُکی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ سے رد ہونے کے بعد اسی سال ستمبر میں آسیہ بی بی کے وکیل نے سماعت کی اپیل سپریم کورٹ میں درج کرائی۔ 2015 ء میں سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کو اُس وقت تک کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا، جب تک ان کی اپیل کا پراسس چلتا رہتا ہے۔ اکتوبر 2016 ء میں آسیہ بی بی کیس نے اُس وقت ایک نیا موڑ اختیار کیا، جب ججوں کے تین رُکنی پنچ میں شامل ایک جج اقبال حمید الرحمان نے اس بینچ سے دستبرداری کا علان کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ کیا اس پر کسی نے غور کیا اور اس پر روشنی ڈالی گئی کہ جج کا یہ استعفیٰ کس طرف اشارہ کرتا ہے؟ 2017ء میں چیف جسٹس آف پاکستان نے اس کیس کی جون کے ماہ میں سماعت کی اپیل پھر ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یوں آسیہ بی بی زندگی اور موت کی سزا کے بیچ آس و نراس کے گہرے سائے میں سانس لے رہی ہے۔
کوئی سوچے کہ اُن دو بچوں کی جنہیں آسیہ بی بی نے خود جنم دیا اور ان تین کی جو اُس کے شوہر کی پہلی بیوی سے ہیں، ذہنی حالت کیا ہوگی؟
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ’نئے پاکستان‘ میں کتنا کچھ نیا ہو سکتا ہے؟ ایک ایسے معاشرے میں، جہاں انتہا پسندوں کا خوف عدلیہ اور مقننہ تک کو قوانین کے ناجائز استعمال کو روکنے کی جسارت کرنے نہیں دے رہا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔