مشرق وسطیٰ میں قیام امن، اوباما پر امید
10 جون 2010محمود عباس کو وائٹ ہاؤس میں خوش آمدید کہتے ہوئے اوباما نے کہا کہ امریکہ اپنی پوری کوشش کرے گا کہ امدادی بحری جہازوں کے خلاف اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے یروشلم اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کے لئے کی جانے والی کوششیں متاثر نہ ہوں۔ صدر اوباما نے کہا کہ واشنگٹن کی کوشش ہو گی کہ فریقین جلد از جلد بالواسطہ مذاکرات سے بلاواسطہ مذاکرات کی جانب آگے بڑھیں۔
امریکی صدر نے غزہ اور مغربی کنارے کے بنیادی ڈھانچے، تعلیم اورگھروں کی تعمیر کے لئے 400 ملین ڈالر کی امداد کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نےکہا کہ غزہ کی موجودہ صورتحال ’ناقابل برداشت‘ ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار قیام امن صرف اور صرف دو ریاستی حل ہی سے ممکن ہے۔
محمود عباس اور باراک اوباما کے درمیان یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب غزہ کے لئے بین الاقوامی امدادی قافلے پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں کم از کم نو افراد کی ہلاکت کے بعد عرب دنیا میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لئے کی جانے والی حالیہ امریکی کوششوں کی کامیابی پر بھی کئی طرح کے سوالات اٹھنے لگے تھے۔
باراک اوباما نے کہا کہ یہ نئی امریکی امداد غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی روزمرہ کی زندگی میں بہتری کے لئے دی جا رہی ہے۔
اوول آفس میں محمود عباس سے ملاقات میں صدر اوباما نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ رواں برس کے اختتام تک مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے سلسلے میں بڑی حد تک پیش رفت سامنے آئے گی اور اس کے لئے واشنگٹن اپنی تمام تر کوششیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ امدادی قافلے پر حملے کے سانحے کو ایک بہتر موقع میں بدل کر غزہ میں رہنے والوں کی زندگیوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے صدر اوباما کے ہمراہ صحافیوں سے بات چیت میں امدادی پیکیج کو مثبت قرار دیا تاہم کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جاری بالواسطہ مذاکرات میں پیش رفت چاہتے ہیں، اور صرف اسی صورت میں وہ بلاواسطہ مذاکرات کی جانب آگے بڑھیں گے۔
رپورٹ عاطف توقیر
ادارت عدنان اسحاق