مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا عزم
28 مئی 2010نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں 189 ممالک نے اس ضمن میں مکالمتی سلسلہ شروع کرنے کےحق میں رائے دی۔ کسی ملک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔ تجویز کے مطابق اس ضمن میں 2012ء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں خطے کے تمام ممالک شرکت کریں گے۔
تین مئی کو شروع ہوئے اس اجلاس کے بعد بائیس نکاتی لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے۔ NPT کی اس کانفرنس کے چیئرمین Libran Cabactulan نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، امریکہ، روس اور برطانیہ پر زور دیا کہ وہ اس سلسلے میں انتظامات کریں۔ امریکہ، چین، روس، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی اصولی حمایت تو کی جاتی رہی تاہم اس ضمن میں قانونی طور پر پابند کرنے والے نظام الاوقات کی تجویز کی مخالفت کی۔
کانفرنس کے ذریعے اسرائیل پر زور دیا گیا وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرکے بین الاقوامی جوہری توانائی کے ادارے IAEA سے تعاون کرے۔ شمالی کوریا سے بھی دوبارہ NPT میں شامل ہونے کا کہا گیا۔ 1970 میں دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی غرض سے تشکیل دئے گئے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے Non-Proliferation Treaty کے تحت حالیہ قرارداد کو اس ضمن میں ایک بہت بڑا قدم تصور کیا جارہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے سے مراد یہ ہوگی کہ نا صرف ایران کو اپنا متنازعہ جوہری پروگرام بند کرنا ہوگا بلکہ اسرائیل کو بھی غیر اعلانیہ جوہری اثاثوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
عرب ممالک نے ایران کے جوہری پروگرام کی مخالفت اسی بات سے مشروط کی تھی کہ تمام خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کئے جانے کی بات کی جائے۔ اسرائیل، بھارت اور پاکستان نے NPT معاہدے پر دستخط نہیں کئے جبکہ شمالی کوریا دستخط کرنے کے بعد جوہری دھماکے کرکے دستبرداری اختیار کرچکا ہے۔ اسرائیل نے ابھی تک باضابطہ طور پر جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا اعلان نہیں کیا ہے۔
NPT پر ہر پانچ سال بعد نظر ثانی کی جاتی ہے۔ رواں سال کے اجلاس میں جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری، جوہری پروگرام کے پر امن مقاصد ثابت کرنا، جوہری توانائی کا محفوظ استعمال اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال ایجنڈے پر سر فہرست رہے۔ یاد رہے کہ 1995ء میں NPT پر نظر ثانی کے وقت بھی مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی تجویز منظور کی گئی تھی تاہم پندرہ سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک اس کو عملی شکل دینے کے لئے مناسب سفارتی کوششیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔
اقوام متحدہ میں موجود سفارتی ذرائع کے مطابق برازیل اور ترکی، جو ایران کے جوہری تنازعے کے حل کے لئے سفارتی حل کی تلاس میں ہیں، ان کوششوں میں مصروف رہے کہ اپنے حلیف ممالک کو انفرادی فیصلے کرنے کے بجائے متفقہ نکتہ نظر کی جانب مائل کریں۔ حالیہ اجلاس میں مغربی ممالک کی کوشش کی تھی کہ ایران کو تنہا کیا جائے۔
اقوام متحدہ کے اجلاس میں مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا جو عزم ظاہر کیا گیا، اگرچہ وہ ابھی ایک بیان کی حد تک محدود ہے تاہم سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے مثبت پیشرفت کی امید ہے۔
دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق تئیس ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے پاس ہیں۔ چالیس ممالک ایسے ہیں جن کے پاس نیوکلیئر ٹیکنالوجی موجود ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف توقیر