مشرق وسطیٰ کی صورت حال، پاکستانی عوام تقسیم کا شکار
22 مئی 2019کئی مبصرین کے خیال میں پاکستان میں سعودی عرب اور ایران کا بہت اثر و رسوخ ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی صورت میں ملک مخالف کیمپوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔ تاہم کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں ملک میں تقسیم کسی جنگ سے پہلے ہی ہوگئی ہے اور ملک کے کچھ حلقے مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار ریاض کو ٹھہراتے ہیں اور کچھ اس کا الزام تہران پر رکھتے ہیں۔
ملک میں سعودی عرب اور ایران کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی موجود ہیں، جو اپنے اپنے پسندیدہ ملک کے موقف کی حمایت کرتی ہیں۔ مجلسِ وحدتِ مسلمین کے رہنما ناصر شیرازی کے خیال میں سعودی عرب اور اسرائیل ایران کو تنہا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ بار بار امریکا کو ایران پر حملہ کرنےکی دعوت دیتے ہیں: ’’لیکن اگر ایران پر حملہ ہوتا ہے تو اس کے نتائج نہ صرف سعودی عرب بلکہ دنیا کے لیے بھی اچھے نہیں ہوں گے۔ لیبیا اور عراق کے آمروں کو تو پھر بھی عوامی حمایت حاصل تھی اور جب عراق پر امریکا نے حملہ کیا تو اس کی بھر پور مزاحمت ہوئی لیکن آل سعود کی تو کوئی عوامی حمایت نہیں ہے، وہاں ایک جابرانہ نظام ہے، جس سے عوام بیزار ہیں۔ اگر خطے میں کوئی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، تو آل سعود کی حکومت نہیں رہے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ خطے میں تباہی کی ذمہ دار سعودی پالیسیاں ہیں: ’’سعودی عرب نے جو نام نہاد اسلامی اتحاد بنایا ہے، وہ امریکا اور مغرب کے ساتھ مل کر یمن میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اگر سعودی عسکری تنصیبات پر حوثی حملہ کرتے ہیں تو یہ بین الاقوامی قانون میں ہے کہ جب کوئی آپ کے ملک پر حملہ کرے تو آپ اپنا دفاع کریں۔‘‘
ان کا دعویٰ تھا کہ سعودی عرب امریکا کے ذریعے ایران پر حملہ کرانا چاہتا ہے اور پاکستانی امریکا سے شدید نفرت کرتے ہیں، اسی لیے کسی بھی امریکی حملے کی صورت میں پاکستانی عوام ریاض اور واشنگٹن کےخلاف کھڑے ہوں گے اور ملک بھر میں اس حملے کے خلاف شدید عوامی ردِ عمل ہوگا۔
پاکستان میں ناقدین کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر ایران اور سعودی نواز ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ، مجلسِ وحدت مسلمین، امامیہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن اورجعفریہ الائنس سمیت کئی شیعہ تنظیموں کو ایران کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے جب کہ کالعدم سپاہ صحابہ، جو اب اہلسنت و الجماعت کے نام سے کام کرتی ہے، مولانا طاہر اشرفی کی پاکستان علما کونسل، تحفظ حرمین شریفین کونسل، کالعدم انصار امہ اور مرکزی جمعیت اہلحدیث سمیت کئی تنظیموں کو سعودی عرب کا حمایتی سمجھا جاتا ہے۔ ریاض سے ہمدردی رکھنے والی تنظیمیں موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار تہران کو گردانتی ہیں اور وہ ایران کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی وکالت بھی کرتی ہیں۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے رہنما ڈاکڑ عبدالغفور راشد نے میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ خلیجی ممالک کے ساتھ چھیڑ خانی سے بعض رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران عرب ممالک کو عدم استحکام سے دو چار کرنا چاہتا ہے: ’’ ایران طاقت کے نشے میں ہے لیکن اس سے اسے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔‘‘
سعودی عرب سے ہمدردی رکھنے والی دوسری مذہبی تنظیمیں بھی اسی طرح کی تنبیہ ایران کو کرتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ کالعدم اہلسنت والجماعت کے رہنما مولانا محمد یعقوب طارق کا دعویٰ ہے کہ ایران حرمین شریفین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے: ’’یہ قبضے کا خواب ایران کا بہت دیرینہ ہے لیکن اگر تہران نے ایسی کوئی کوشش کی تو پاکستان کے عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور وہ حرمین کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔‘‘
دنیا بھر میں ایران کو امریکا مخالف سمجھا جاتا ہے لیکن مولانا طارق کے خیال میں تہران، واشنگٹن کے اشارے پر مسلم ممالک کو کمزور کر رہا ہے: ’’بظاہر تو ایران مرگ بر امریکا کا نعرہ لگاتا ہے اور امریکا دشمنی کا ڈھونگ رچاتا ہے لیکن تہران اسلامی ممالک میں عدم استحکام پیدا کر کے امریکا کی سب سے بڑی خدمت کر رہا ہے ۔امریکا مشرق وسطی کے تیل پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اگر وہاں عدم استحکام ہوتا ہے، جو ایران پیدا کر رہا ہے، تو امریکا اس تیل پر قابض ہو جائے گا۔‘‘
ان مخالفانہ بیانات اور نقطہ نظر سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی معاشرہ اور مذہبی و سیاسی جماعتیں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر منقسم ہیں۔ سعودی اور ایران نواز جماعتیں نہ صرف بیانات کے ذریعے بلکہ مظاہرے، احتجاجوں اور ریلیوں کے ذریعے بھی اس تقسیم کو مضبوط کر رہی ہیں۔ جب کہ دونوں کیمپ سوشل میڈیا کو بھی بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔
اس صورتِ حال پر پاکستانی سیاسی جماعتوں سمیت تحریکِ انصاف بھی پریشان نظر آتی ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما سید ظفر علی شاہ کے خیال میں اگر پاکستان امریکا کے ساتھ گیا تو معاشرے میں بہت بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئےانہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان پر دباؤ ہو گا کہ وہ کوئی ایک لائن لے لیکن اگر پاکستان نے ایران مخالف لائن لی تو معاشرے میں بڑے پیمانے پر مزاحمت کے امکانات ہیں کیونکہ ملک میں دو ہی بڑے فرقے ہیں۔۔۔ ایک اہلسنت اور دوسرے اہل تشیع، جو تقریباﹰ ملک کی آبادی کا چالیس فیصد ہیں۔ تو کسی امریکی حملے کے نتیجے میں فوج، بیورکریسی، سیاسی جماعتوں۔۔۔ غرض یہ کہ ہر طرف سے مزاحمت ہوگی۔‘‘