مشرقی یورپی سرحدوں کی حفاظت کے لیے نیٹو سریع الحرکت فورسز بنائے گا
6 ستمبر 2014خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مغربی ممالک جانتے ہیں کہ روسی صدر ولادیمر پوٹن اور ان کے جرنیل امریکا اور اس کے جوہری طاقت کے حامل یورپی اتحادی ممالک کے ساتھ براہ راست لڑائی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے، اسی لیے مشرقی یورپی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ’تیز دھار‘ سریع الحرکت فوج بنائی جا سکتی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ نئی فورس تعداد میں زیادہ نہیں اور صرف چند ہزار فوجیوں پر مشتمل ہو گی، تاہم اس سے مغربی طاقتوں کی جانب سے ایک واضح اور دوٹوک پیغام دیا جائے گا کہ نیٹو اپنی مشرقی سرحدوں کی حفاظت کے لیے سرگرم ہے۔
نیٹو کے ڈپٹی سپریم یورپیئن کمانڈر جنرل سر ادریان براڈشا کے بقول، ’ایسا اس لیے ضروری ہے کہ اس طرح ہم اتحادی ممالک سے جنگی قوت کے حامل دستوں کو یکجا کریں گے، جو اپنے دشمن کو پہچانتے ہوں اور وہ پوری نیٹو اتحاد کی نمائندگی کریں۔‘
اس برطانوی جنرل کا مزید کہنا تھا، ’مجھے نہیں لگتا کہ روس نیٹو کے ساتھ براہ راست اسٹریٹیجک لڑائی چاہتا ہے۔ کیوں کہ ایسا سوچنے والا کوئی پاگل ہی ہو گا۔‘
اس فورسز کا قیام جمعے کے روز نیٹو سربراہی اجلاس میں امریکی صدر باراک اوباما نے کیا۔ اس فورسز کا مقصد نیٹو اتحاد میں شامل کمزور عسکری قوت کے حامل ممالک پولینڈ، رومانیہ اور بالٹک ریاستوں کو روس کی مضبوط افواج کے خطرات سے بچانا ہے۔ واضح رہے کہ یوکرائن میں روسی مداخلت کی وجہ سے مشرقی یورپی ممالک عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں اور اس فورسز کے قیام اور تعیناتی سے اس احساس میں کمی ہو گی۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں برس کے آغاز پر روس نے یوکرائنی علاقے کریمیا پر ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد قبضہ کر لیا تھا جب کہ اس پر الزام ہے کہ وہ مشرقی یوکرائن میں روس نواز باغیوں کی بھرپور عسکری مدد کر رہا ہے۔
یوکرائن نیٹو رکن ریاست نہیں، جسے نیٹو کے تحفظ کی چھتری حاصل ہو، تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یوکرائن کے قریب واقع تین سابق سویت ریاستیں نیٹو اتحاد میں شامل ہو چکی ہیں، جب کہ سوویت سیٹیلائیٹ ریاستیں پولینڈ، ہنگری، چیک جمہوریہ اور سلوواکیہ، رومانیہ اور بلغاریہ بھی نیٹو کی رکن ہیں۔
صدر اوباما نے واضح الفاظ میں کہا کہ امریکا اور دیگر نیٹو رکن ریاستیں اپنی اس ذمہ داری سے خوب آگاہ ہیں جو نیٹو کی آغاز پر سن 1949ء کے معاہدے میں طے ہوئیں تھیں۔ ’’آرٹیکل پانچ واضح الفاظ میں ہمیں ذمہ داری سونپتا ہے کہ کسی ایک رکن ریاست کے خلاف حملہ سب پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ اس معاہدے کی روح ہے اور اس پر کوئی بات نہیں ہو سکی اور یہاں ویلز میں ہم نے اس بات میں کوئی شک نہیں چھوڑا کہ ہم اپنے ہر اتحادی کا تحفظ کریں گے۔‘