مصر، اردن اور فلسطینی اتھارٹی کے رہنماوں کے مابین ملاقات
3 ستمبر 2021مصری صدر کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق صدر عبدالفتح السیسی، اردن کے شاہ عبداللہ دوئم اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کے حوالے سے جمعرات کے روز قاہرہ میں بات چیت کی۔ اس میٹنگ کا مقصد مشرق وسطیٰ امن مساعی کو بحال کرنا اور اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تشدد کو روکنے کے لیے کی گئی جنگ بندی کو مستحکم کرنا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تینوں رہنماوں نے ”مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے مل کر کوشش کرنے اور امن مساعی کو بحال کرنے کے لیے بھائیوں اور شرکاء کار کے ساتھ مل کر کام کرنے" کا عہد کیا۔ تینوں رہنماوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست کا حق ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ اسرائیل اس طرح کے کسی بھی منصوبے اور یروشلم کو فلسطین کے دارالحکومت بنانے کی سخت مخالفت کرتا ہے۔
اقوام متحدہ نے اس بات چیت کا خیر مقدم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن جارک نے ایک بیان میں کہا،”ہم امید ہے کہ ا س کا مثبت نتیجہ برآمد ہوگا اور اسرائیلی۔ فلسطینی تصادم میں سفارت کاری دوبارہ بحال ہو سکے گی۔"
فلسطینی اتھارٹی با ت چیت کے لیے تیار ہے
محمود عباس کا کہنا تھا کہ گو کہ اسرائیل کی مسلسل بڑھتی ہوئی ”خلاف ورزیوں" نے بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے دو ریاستی حل کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے اس کے باوجود فلسطینی اتھارٹی پرامن طریقہ کار سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے تیار ہے۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے ذریعہ شائع کردہ متن کے مطابق محمود عباس نے کہا،”ہم اس مرحلے پر بھی بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ اعتماد سازی کے ذریعہ ایک ایسا ماحول تیار ہو سکے جس میں فلسطینی سرزمین پر جامع امن کے قیام کے حصول کا مقصد شامل ہے۔"
تیرہ برسوں میں غزہ کی چار جنگیں، اثرات کیا اور نقصانات کتنے؟
وفا کی طرف سے شائع بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل کوسب سے پہلے تسلیم کرنے والے دو عرب ممالک مصر اور اردن نے عباس کو حمایت جاری رکھنے کے عہد کا اعادہ کیا۔ جن کی فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے کو سنبھالتی ہے جب کہ اسلامی تحریک حماس کا غزہ پر کنٹرول ہے۔
گوکہ اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت میں فلسطینی شہریوں کی قیادت والی ایک پارٹی بھی پہلی مرتبہ شامل ہے، جس نے مئی کے ہلاکت خیز تشدد کے بعد امن و سکون برقرار رکھنے کا عزم کیا ہے، تاہم حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔
مئی میں گیارہ دنوں تک جاری رہنے والے تصادم میں 67 بچوں اور 39خواتین سمیت کم از کم 260 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔ حماس نے 80 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ دوسری طرف ایک فوجی اور دو بچوں سمیت بارہ اسرائیلی بھی اس تصادم میں مارے گئے تھے۔
مذاکرات بحال کرنے کی کوششیں
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے حال ہی میں کہا تھا کہ وزیر اعظم نفتالی بینیٹ مصری صدر السیسی کے ساتھ بات چیت کے لیے 'عنقریب‘ مصر کا دورہ کریں گے۔
بینیٹ نے گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن سے واشنگٹن میں ملاقات کی تھی جب کہ اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹس نے مقبوضہ مغربی کنارے کے رملہ میں محمود عباس کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ اس ملاقات کو عباس اور اسرائیلی رہنماوں کے درمیان حالیہ برسوں میں تقریباً مکمل منقطع رابطوں کو بحال کرنے کی ممکنہ کوشش کے طور پردیکھا جا رہا ہے۔ اس ملاقات کے بعد اسرائیلی حکومت نے فلسطینی اتھارٹی کو مستحکم کرنے کے لیے کئی اعلانات کیے جن میں 150ملین ڈالر کا قرض شامل ہے۔
مصر کے انٹلی جنس کے سربراہ عباس کامل نے گزشتہ ماہ اسرائیل کا غیرمعمولی دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان دیرپا جنگ بندی معاہدے کی شرطوں پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ کمال نے محمود عباس سے بھی ملاقات کی تھی۔
اسرائیلی وزیر دفاع اور فلسطینی صدر کی اہم ملاقات
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان سن 2014 میں امن مذاکرات ٹوٹ گئے تھے اور تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ اس کے بحال ہونے کے امکانات بہت کم ہیں، کیونکہ محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے درمیان اس معاملے پر شدید اختلافات ہیں۔
یروشلم سے بے دخلی: فلسطینیوں نے اسرائیلی تجویز مسترد کر دی
اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لیپیڈ نے اسرائیل اور فلسطینی تنازع کے دو ریاستی حل کے امکانات پر شبہ کا اظہار کرتے ہوئے بدھ کے روز کہا تھا کہ اس طرح کی کوئی بھی کوشش شدت پسند اور قوم پرست وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی مخلوط حکومت کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)