مصر میں احتجاج جاری، ’فوج طاقت کا استعمال نہیں کرے گی‘
1 فروری 2011بتایا جارہا ہے کہ عوامی مظاہروں کا سلسلہ بڑے شہروں کے بعد اب چھوٹے قصبوں تک پھیل گیا ہے۔ لگ بھگ 80 ملین کی آبادی والے اس شمال افریقی ملک میں بڑے پیمانے پر بے چینی کے فضا قائم ہے۔ مظاہرین نےایک لاکھ افراد کا مظاہرہ کرنے اورغیرمعینہ مدت تک ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
مسلسل غیریقینی کی صورتحال کے سبب مصری حکومتی بانڈ کی قدر میں کمی کردی گئی ہے۔ مصری تجارتی حلقوں کے مطابق ملکی سٹاک مارکیٹ، بینک اوراسکندریہ کی بندگاہ پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ مصر کی اقتصادیات کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے بندر گاہی شہرسوئز میں البتہ کام معمول کے مطابق ہورہا ہے۔ مصر کی صورتحال کے سبب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بلندی کی جانب گامزن ہے۔
ان مظاہروں کے ہونے کے بعد طاقتور تصور کی جانے والی مصری فوج نے کہا ہے کہ وہ حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال نہیں کرے گی۔ اس نازک وقت میں فوج کی طرف سے جاری ہونے والے پہلےبیان میں کہا گیا ہے کہ وہ مظاہرین پر گولی نہیں چلائے گی۔
مصرمیں 1952ء میں شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے فوج انتظامی معاملات میں بالادست قوت تصور کی جارہی ہے۔
دوسری جانب حکومت مخالف قوتیں یکجا ہورہی ہیں۔ مصرمیں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت اخوان المسلمون پر اگرچہ پابندی عائد ہے مگر اس کے کارکن ملک بھر میں فعال ہیں۔ اقوام متحدہ میں بین الاقوامی جوہری توانائی کے شعبے کے سابق مصری سربراہ محمد البرادعی کو اپوزیشن کے نمائندے کے طور پر نامزد کیا جاچکا ہے۔ حکومت مخالف دھڑوں کی کوشش ہے کہ حکمراں جماعت NDP کے بغیرقومی حکومت کا قیام ممکن ہوسکے۔
صدر مبارک گزشتہ روزنئی حکومت تشکیل دے چکے ہیں۔ انہوں نے متنازعہ وزیر داخلہ کی جگہ نیا وزیر نامزد کیا ہے اور نائب صدر عمر سلیمان کو اپوزیشن سے مذاکرات کا کہا ہے۔ دارالحکومت قاہرہ کی سڑکوں پر پولیس فورس دوبارہ فعال ہوگئی ہے۔ پولیس اہلکار دو روز تک پر اسرار طور پر غیر حاضر رہے تھے۔ بعض مظاہرین کے مطابق ایسا اس لیے کیا گیا تھا کہ مظاہرین کے دلوں میں خوف بٹھایا جاسکے۔
بہت سے ممالک نے اپنے عام شہریوں اور سفارتی عملے کے اہل خانہ کو مصر چھوڑنے کی تاکید کی ہے۔ امریکی صدرباراک اوباما نے مصر میں عوامی خواہشات کے مطابق منظم حکومت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ