مصر میں احتجاج، مسلمان اور کرسچین متحد
10 فروری 2011مصری دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں پچھلے چند ہفتوں سے صدر حسنی مبارک کے خلاف جو عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں، ان میں مسلمان اور کرسچین دونوں عقیدوں کے لوگ ایک ہو گئے ہیں۔ قاہرہ میں ابھی تک جاری ان مظاہروں کے دوران بہت سے شہریوں کا کہنا ہے کہ ’مسلمان یا عیسائی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم سب مل کر ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔‘
مصر میں25 جنوری سے پورے ملک میں سڑکوں پر عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مظاہروں میں لاکھوں اور کبھی کبھی کئی ملین شہریوں نے حصہ لیا۔ یہ مظاہرین ملک میں حسنی مبارک کے تیس سالہ دور صدارت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
اس عوامی احتجاج کے دوران پہلے ہفتے میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تقریبا روزانہ جھڑپیں ہوتی رہیں۔ ان جھڑپوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ ابتدا میں اس احتجاج کا اہتمام ایسے آن لائن گروپوں نے کیا تھا، جن کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں تھا۔ مثال کے طور پر چھ اپریل نامی احتجاجی تحریک اور آزادی اور انصاف کے لیے یوتھ موومنٹ۔
اس دوران چند مبصرین نے یہ کوشش بھی کی کہ اس عوامی احتجاج کو ایک اسلامی انقلاب کی کوشش کے طور پر پیش کیا جائے۔ ایسے مبصرین کا کہنا تھا کہ مصر میں یہ تبدیلی ایرانی انقلاب کی طرح کی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔ان حالات پر مغربی میڈیا نے بھی بہت کچھ لکھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے تو 31 جنوری کو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ انہیں اس صورت حال پر بہت تشویش ہے۔
نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ‘ہمارا اصل خدشہ ایسی صورت حال ہے جو ایران سمیت کئی ملکوں میں پہلے ہی دیکھنے میں آ چکی ہے۔‘ اس کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم نے جو لفظ استعمال کیے تھے، ان میں جبر کرنے والی انتہا پسند اسلامی حکومتوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ لیکن قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں جمع مصری عوام کی سوچ اس کے برعکس ہے۔ منگل کے روز وہاں جو حکومت مخالف مظاہرہ کیا گیا، اس میں لاکھوں شہری شامل ہوئے۔ مصر میں ہر روز جو ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں، ان میں عوام کا مسلم کرسچین اتحاد ایک خاص بات ہوتی ہے۔
ایک بائیس سالہ مسلمان شہری احمد کے مطابق مصر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کا بڑا طاقتور احساس پایا جاتا ہے۔اس مصری نوجوان کے مطابق مظاہرین کے سارے مظاہروں میں اور مسلمان علماء کی ساری تقریروں میں قومی اتحاد کی اہمیت پر خصوصی زور دیا جاتا ہے۔ صدر حسنی مبارک کے خلاف اس عوامی احتجاج کے پہلے ہفتے کے دوران، جب مظاہرین کی پولیس کے ساتھ پر تشدد جھڑپیں ہوئیں، ان میں مختلف مذاہب کے شہریوں کے درمیان ایک دوسرے سے ہمدردی کا اظہار بڑا واضح تھا۔
کئی مرتبہ توکرسچین مظاہرین نے اپنے ان مسلمان ساتھیوں کی حفاظت کی، جو اپنے احتجاج کے دوران با جماعت نماز پڑھنے لگتے تھے۔ ان دنوں میں مصر کے ان عیسائی باشندوں نے اپنے مسلمان ساتھی مظاہرین کو پولیس کی طرف سے غصے میں کیے جانے والے حملوں سے بچایا تھا۔
قاہرہ کے رہنے والے ایک نوجوان نے مصر میں مسلمان اور عیسائی مظاہرین کے درمیان یکجہتی کے ایک ذاتی واقعے کا ذکر کیا۔ اس نوجوان کا نام یحییٰ رومی ہے اور اس کی عمر چوبیس سال ہے۔ یحییٰ نے خبر ایجنسی آئی پی ایس کو بتایا کہ 28 جنوری کو مظاہرین کی پولیس کے ساتھ شدید جھڑپیں عمل میں آئی تھیں۔ ’میری ہی عمر کا ایک لڑکا میری کمر پیچھے کھڑا میری حفاظت کر رہا تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ کرسچین تھا۔‘
مصر میں اس وقت مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان یکجہتی بھی پائی جاتی ہے اور قومی سطح پر اتحاد کا احساس بھی۔ لیکن اس سے پہلے پچھلے دو سال کے دوران وہاں مسلمان اکثریت اور کرسچین اقلیت کے درمیان کچھاؤ میں اضافہ ہی ہوتا رہا تھا۔ اس وقت مصر میں مسلمانوں اور کرسچین شہریوں کے درمیان تشدد کے چند واقعات بھی دیکھنے میں آئے تھے۔
یکم جنوری کو اسکندریہ میں ایک کوپٹک چرچ پر بم حملے میں بیس سے زائد عیسائی شہری مارے گئے تھے۔ لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ صدر مبارک کے خلاف احتجاج میں مسلمان اور عیسائی سب ایک ہو چکے ہیں۔ مصر کی کل آبادی 82 ملین ہے، جس میں کوپٹک کرسچین شہریوں کی تعداد تقریبا دس فیصد ہے۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت:عدنان اسحاق