مصر میں صدر حسنی مبارک بالآخر مستعفی
11 فروری 2011مصر میں کئی ہفتوں سے جاری وسیع تر عوامی مظاہروں میں یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ تین عشروں سے برسر اقتدار صدر فوری طور پر مستعفی ہو جائیں۔
صدر مبارک نے جمعرات کی شب اپنے ایک نئے ٹیلی وژن خطاب میں یہ کہا تھا کہ وہ ملک میں تبدیلی کے لیے عوامی مطالبات تسلیم کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ خود پر بیرون ملک سے ڈالا جانے والا کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی اس سال ستمبر میں نئے صدارتی الیکشن سے قبل اپنے عہدے سے مستعفی ہوں گے۔ لیکن مسلسل عوامی دباؤ کے باعث بیاسی سالہ مبارک کو جمعہ کی شام اقتدار کو خیرباد کہنا ہی پڑا۔
اقتدار سے رخصتی سے انکار پرآج بعد دوپہر تک مصری اپوزیشن کی طرف سے غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ پھرقاہرہ میں ملکی فوج کی اعلیٰ قیادت کے ایک اہم اجلاس کی رپورٹیں بھی ملنے لگیں۔ مظاہرین یہ سوچ رہے تھے کہ شاید فوج صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرے۔ لیکن فوج نے اس اجلاس کے بعد جاری کیے گئے ایک بیان میں حسنی مبارک کی تائید وحمایت کا اعلان کر دیا تھا۔
اس پر مصر میں صدر مبارک کے مخالفین، خاص کر قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں جمع ہزاروں شہریوں نے اس بات کی مذمت کی تھی کہ بیاسی سالہ صدر شدید تر عوامی احتجاج کے باوجود اقتدار سے دستبردار ہونے سے انکاری تھے اس کے بعد مصری فوج نے آج ہی حسنی مبارک کے ملک میں اصلاحات کے منصوبے کی تائید بھی کر دی تھی۔
جمعہ کی سہ پہر فوج کا ایک اعلان سرکاری ٹیلی وژن پر پڑھ کر سنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ فوج کے ایک کرنل نے قاہرہ میں صدارتی محل کے سامنے یہی بیان پڑھ کر بھی سنایا تھا، جہاں بہت سے مظاہرین جمع ہو گئے تھے۔اس موقع پر جب یہ بیان پڑھا جا رہا تھا، مظاہرین میں سے ایک نے آگے بڑھ کے اس کرنل سے مائیکرو فون چھین لیا تھا۔
اس اپوزیشن کارکن نے چلا کر فوج کے بارے میں کہا تھا کہ ‘تم نے ہمیں ناامید کیا ہے۔ ہماری تمام امیدیں تم سے وابستہ تھیں۔‘ پھر وہاں پر مظاہرین نے صدر مبارک کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے یہ مطالبے کرنا شروع کر دیے تھے کہ حسنی مبارک کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ جس وقت فوج نے صدرکے حق میں اپنا بیان جاری کیا تھا، اس وقت التحریر اسکوائر میں جمع لاکھوں مظاہرین نے وہاں جمعہ کی نماز ادا کرنا شروع کر دی تھی۔
ان لاکھوں نمازیوں کی امامت کرانے والے مذہبی رہنما نے مطالبہ کیا کہ فوج کو اس وقت ایسا کردار ادا کرنا چاہیے، جس پر وہ روز قیامت شرمندہ نہ ہو۔ مصری اپوزیشن کے نوبل امن انعام یافتہ رہنما محمد البرادعی نے آج ہی کہا تھا کہ مبارک انتظامیہ مکمل انتشار کا شکار ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ’ حسنی مبارک اور ان کے ساتھی ایک ایسا بحری جہاز ہیں، جو ڈوب رہا ہے اور جس پر سوار افراد نے وہاں سے بھاگنا شروع کر دیا ہے۔‘
اسی دوران ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نےجمعہ کے دن کہا کہ اس وقت ایک نیا مشرق وسطیٰ وجود میں آ رہا ہے۔ ان کے بقول مصری عوام کو امریکہ سے خبردار رہنا چاہیے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ وہ عرب دنیا میں عوامی احتجاجی تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘نئے مشرق وسطیٰ‘ میں امریکہ کو کوئی اثر و رسوخ حاصل نہیں ہو گا۔
چند بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مستعفی ہونے والے صدر مبارک اپنے اہل خانہ کے ساتھ قاہرہ چھوڑ کر تقریحی مقام شرم الشیخ پہنچ گئے ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت:عدنان اسحاق