مصر نے حسنی مبارک پر سفری پابندیاں عائد کر دیں
28 فروری 2011مصر کے سرکاری ٹیلی وژن نے حسنی مبارک اور ان کے خاندان پر لگائی گئی سفری پابندیوں اور ان کی جائیدادیں منجمد کیے جانے کی تصدیق کی ہے، جو مبارک کے خلاف کیے گئے اقدامات کے سلسلے کی کڑی ہے۔
استغاثہ نے بیس فروری کو حسنی مبارک، ان کی اہلیہ، دو بیٹوں اور بہوؤں کی جائیدادیں منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
مصر کے سابق صدر حسنی مبارک نے 11 فروری کو اٹھارہ روز تک جاری رہنے والے عوامی احتجاج کے بعد عہدہ چھوڑا تھا۔ انہوں نے تین دہائیوں تک اس عرب ریاست پر حکمرانی کی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت وہ اپنے خاندان کےد یگر افراد کے ساتھ شرم الشیخ میں واقع اپنی ایک رہائش گاہ میں قیام پذیر ہیں۔
انہوں نے اقتدار فوج کو سونپا تھا، جس نے نگران حکومت قائم کر رکھی ہے، جو نئے آئین کی منظوری اور انتخابات کے انعقاد تک ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی۔
خیال رہے کہ اپنے دورِ اقتدار کے خلاف وسیع تر مظاہرے شروع ہونے پر قبل ازیں حسنی مبارک نے فوری طور پر مستعفی ہونے سے انکار کیا تھا۔ تب انہوں نے محض یہ یقین دلایا تھا کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ تاہم مظاہروں میں شدت آنے پر وہ اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
مصر میں حکومت مخالف مظاہرے دراصل تیونس میں ایسے ہی عوامی احتجاج کے بعد شروع ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں وہاں معزول صدر زین العابدین بن علی اپنا طویل اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے تھے۔
تیونس اور مصر میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ اب دیگر عرب ریاستوں تک بھی پہنچ چکا ہے۔ اس حوالے سے لیبیا خاص طور پر عالمی توجہ کا مرکز ہے، جہاں کے عوام اپنے رہنما معمر قذافی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ چالیس برس سے وہاں حکمرانی کر رہے ہیں۔
تاہم قذافی کی جانب سے اقتدار چھوڑنے سے انکار پر حالات انتہائی کشیدہ رُخ اختیار کر چکے ہیں۔ عالمی برادری لیبیا کے شہریوں کے خلاف تشدد کے استعمال پر سخت ردعمل ظاہر کر رہی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی