مصر کی صورتحال میونخ عالمی سلامتی کانفرنس کے ایجنڈےپر
1 فروری 2011سالانہ بنیادوں پر ہونے والی اس عالمی کانفرنس میں کئی ممالک کے وزراء، فوجی عہدیدار اور سماجی شعبے سے وابستہ شخصیات شریک ہوتی ہیں۔
ویک اینڈ پر میونخ میں ہونے والی سلامتی کانفرنس کے منتظم وولف گانگ ایشنگر نے کہا ہے کہ کوارٹیٹ کے رکن ممالک کے اجلاس میں مصر کے معاملے کو کلیدی اہمیت حاصل رہے گی۔ واضح رہے کہ کوارٹیٹ مشرق وسطیٰ سے متعلق ایک سفارتی گروپ ہے، جس کے ارکان میں اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور روس شامل ہیں۔ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کوارٹیٹ کے خصوصی نمائندے ہیں۔
تیونس کے انقلابِ یاسمین سے متاثر ہوکر مصر اور چند دیگرعرب ریاستوں میں عوامی احتجاج کا سلسلہ چل پڑا ہے، جس کے اثرات دنیا بھر میں دیکھے جارہے ہیں۔ امریکہ، جرمنی اوربرطانیہ سمیت بعض دیگریورپی ممالک نے اپنے سفارتی عملے اور شہریوں کو مصر سے نکلنے کے مشورے دیے ہیں۔ کوارٹیٹ کے لیے مصر کی صورتحال اس لئے اہم ہے کہ وہاں کے حالات کا اثر مشرق وسطیٰ کے امن عمل پر پڑسکتا ہے۔
وولف گانگ ایشنگر، جوکہ امریکہ کے لیے جرمنی کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ جس رفتار سے امن مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں، وہ بہت سست ہے۔ وولفگانگ ایشنگر کا کہنا ہے کہ وقت ضائع کرنا درست نہیں،’میری نظر میں وقت اسرائیل کے حق میں نہیں بڑھ رہا۔‘ مشرق وسطیٰ اور یورپ کا موازنہ کرتے ہوئے سابق جرمن سفارتکار نے کہا کہ یورپ کو آمریت سے جمہوریت کے سفر کے تجربات حاصل ہیں۔
مصرمیں جمہوری اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یورپ ہمیشہ سے جمہوریت کا حامی رہا ہے۔ میونخ کانفرنس کے موقع پر امریکہ اور روس کے درمیان نئے سٹارٹ معاہدے کے توثیق شدہ مسودے کا تبادلہ بھی متوقع ہے۔
میونخ میں شروع ہونے والی عالمی سلامتی کانفرنس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، افغان صدر حامد کرزئی اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سمیت 350 شخصیات شرکت کریں گی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ