مصری خواتین پر جنسی حملے، مارشل آرٹس کی تربیت کا رجحان
9 دسمبر 2013مائم خالد ایسی ہی ایک مصری خاتون ہے جو ان دنوں قاہرہ میں جسمانی دفاع کے ایک تربیتی کورس میں حصہ لے رہی ہے۔ وہ جب اپنی کلاس میں ہوتی ہے تو بڑی توجہ سے یہ سیکھنے کی کوشش کرتی ہے کہ ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کیسے کرنا چاہیے۔
ایسے تربیتی کورسز کا اہتمام مصر میں ان دنوں عام طور پر وہ سماجی گروپ اور تنظیمیں کراتے ہیں جو خواتین کے حقوق اور ان کی جسمانی حفاظت کے لیے فعال ہیں۔ ایسے ہی ایک گروپ کا نام تحریر باڈی گارڈ ہے۔ اس کا مطلب ہے لبریشن باڈی گارڈ لیکن تحریر قاہرہ کے اس مشہور چوک کا نام بھی ہے جہاں گزشتہ قریب دو سال سے ہر روز بہت بڑے بڑے عوامی احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔
مائم خالد، جنہیں مئی خالد کے نا سے بھی جانا جاتا ہے، ایک مصنفہ ہیں اور اس کی عمر پچاس برس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتیں کہ کب انہیں اپنے جسمانی تحفظ کی ضرورت پڑ جائے۔ اس وجہ سے اُن کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی بھی حملہ آور پر جوابی حملہ کس طرح اور جسم کے کس حصے پر کیا جانا چاہیے کہ انسان اپنا تحفظ کر سکے۔
مائم خالد اور اس کے ساتھ ایک کورس میں شریک ایک درجن کے قریب دوسری خواتین کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ جنسی حملہ کرنے کا ارادہ رکھنے والے کسی مرد کی جسمانی حرکات و سکنات کو قبل از وقت کس طرح بھانپ سکتی ہیں۔ یہ مصری خواتین اور ان کی طرح کی دیگر بہت سی عورتیں ایسے تربیتی کورسز میں شرکت پر اس لیے مجبور ہو گئیں کہ مصر میں خواتین پر جنسی حملوں میں پریشان کن حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
اس سال اٹھائیس جون سے لے کر سات جولائی تک صرف قاہرہ کی شاہراہوں پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران ایک سو چھیاسی خواتین پر جنسی حملوں کے واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ناظرہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ حملے اس وقت کیے گئے جب اس دور کے صدر محمد مرسی کے خلاف عوامی احتجاجی مظاہرے کیے جاتے تھے۔ ان میں سے اسی جنسی حملے صرف ایک دن یعنی تین جولائی کو کیے گئے جب فوج نے محمد مرسی کو اقتدار سے برطرف کر دیا تھا۔
ایسے تربیتی کورسزعام طور پر سولہ دن تک جاری رہتے ہیں اور ان کا اہتمام پانچ ایسے گروپوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جو ایسے حملوں کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
جنسی تشدد کے خلاف فعال ایک رضاکار تنظیم HarassMap کی عبا التمامی کہتی ہیں کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ مصری معاشرے میں جنسی تشدد اور دیگر جنسی جرائم کو قبول کر لینے کا رحجان پایا جاتا ہے۔
مارچ دو ہزار گیارہ میں مصری فوجداری قانون میں ترمیم کر دی گئی تھی اور جنسی حملے کی سزا بڑھا کر پندرہ سال تک کر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ زبانی زیادتی کی سزا بھی چھ ماہ سے بڑھا کر دو سال کر دی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے اسی سال کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق مصر میں اسی فیصد سے زائد خواتین خود کو عام سڑکوں پر اور پبلک ٹرانسپورٹ میں غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس عرب ملک میں گزشتہ چند برسوں کے دوران خواتین پر جنسی حملوں کی روک تھام کے لیے کئی پروگرام شروع کیے جا چکے ہیں۔ ٓ