مظاہروں کے پیچھے قطر تھا، بحرین کا الزام
16 اگست 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بحرین کے سرکاری ٹیلی وژن کے حوالے سے بتایا ہے کہ دوحہ حکومت نے خلیجی ریاست بحرین میں حکومت مخالف مظاہرین کو ہوا دی۔ الزام عائد کیا گیا ہے کہ دراصل قطری حکومت بحرین حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں تھی۔ تاہم دوحہ حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
قطر نے اسّی ممالک کے شہریوں کو ویزے کی چھوٹ دے دی
الجزیرہ ٹیلی وژن تشدد کو ہوا دے رہا ہے، اسرائیلی وزیراعظم
’قطری رابطوں والے دہشت گردوں کی فہرست جاری کر دی گئی‘
سرکاری ٹیلی وژن میں بدھ کے دن نشر کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق بحرین میں گزشتہ چھ سالوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کے پیچھے دوحہ حکومت کا ہی ہاتھ تھا۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سن دو ہزار گیارہ میں قطری وزیر اعظم نے بحرینی اپوزیشن اتحاد الوفاق کے رہنما علی سلمان سے رابطہ کیا تھا، جس میں انہیں کہا گیا تھا وہ ملکی حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کریں۔
اس نشریاتی رپورٹ میں بحرین میں صحافیوں کی انجمن کے سربراہ مونس المرضی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
ان کے مطابق اس رپورٹ میں بیان کیے جانے والے شواہد کی بنیاد پر دہشت گردی کی معاونت کرنے والے ملک قطر کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی کی جانا چاہیے۔
بحرین میں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے تاہم وہاں حکمرانی سنی اقلیت کے پاس ہے۔
عرب اسپرنگ کے نتیجے میں بحرین میں بھی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جسے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کچل دیا گیا تھا۔
تاہم بحرین میں اب بھی گاہے بگاہے شیعہ اکثریت مختلف مظاہرے کرتی رہتی ہے۔ بحرین میں شیعہ حلقوں کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد ’الوفاق‘ ہے، جس کے ارکان پارلیمان نے سن دو ہزار گیارہ میں مظاہرین کے خلاف حکومتی کریک پر احتجاجی طور پر ایوان زیریں سے استعفے دے دیے تھے۔
یہ امر اہم ہے کہ بحرین کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے۔ اسی الزام کی وجہ سے سعودی اتحاد میں ان ممالک نے جون میں قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
اس سیاسی بحران کے حل کی کوششوں کی خاطر عالمی سطح پر بھی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم اس تازہ الزام کے نتیجے میں اس بحران میں شدت کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
سن دو ہزار سولہ میں بحرین کی ایک عدالت نے الوفاق کو تحلیل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ وہ ملک میں دہشت گردوں کی مدد گار تھی۔ اس کے بعد اس گروہ کے سربراہ علی سلیمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جو سن دو ہزار چودہ سے جیل میں ہیں۔
اسی طرح بحرینی حکومت نے اپوزیشن کے سینکڑوں کارکنوں کو بھی جیل کی سزائیں سنائیں اور کچھ کی تو ملکی شہریت بھی منسوخ کر دی گئی۔