مظاہرین کی شکایات جائز ہیں، باروسو
18 اکتوبر 2011یورپی کمیشن کے سربراہ ژوزے مانوئیل باروسو نے کہا ہے کہ مالیاتی شعبے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسے اخلاقی معیارات کا خیال رکھنا چاہیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان کے مطابق چانسلر نے کہا ہے کہ مظاہرین کے مطالبات بالکل جائز ہیں۔
امریکہ کی ’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘ مہم سے متاثر ہو کر عالمی سرمایہ داری نظام اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے خلاف احتجاج یورپ کے بہت سے دارالحکومتوں میں جاری ہیں۔ لندن سے لے کر فرینکفرٹ اور ایمسٹرڈیم سے لے کر میڈرڈ تک ہزاروں کی تعداد میں افراد اپنی حکومتوں کی مالیاتی پالیسوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق امریکہ سے شروع ہونے والے یہ مظاہرے ایک ماہ بعد دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں اور عالمی تحریک میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔
جرمن شہر فرینکفرٹ میں سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین نے یورپی مرکزی بینک کے سامنے خیمے لگا کر ڈیرا ڈالا ہوا ہے۔ لندن کے بازار حصص کے سامنے نیویارک کی طرز پر مظاہرین نے احتجاجی کیمپ لگا لیا ہے۔
فرینکفرٹ میں ہونے والے مظاہرے میں دو سو کے قریب افراد نے شرکت کی۔ بائیس سالہ آرون کراؤس کا کہنا تھا کہ وہ وہ یورپی سینٹرل بینک کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک کہ ان کے پاس وہاں بیٹھے رہنے کا اختیار ہے۔ بعض ممالک میں یہ مظاہرے پر تشدد شکل اختیار کرتے بھی دکھائی دیے۔ اٹلی کے دارالحکومت روم اور یونان میں مظاہرین اور حکومتی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ روم میں ایک سو پینتیس افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ہفتے کے روز سب سے بڑے مظاہرے لزبن، روم اور میڈرڈ میں ہوئے۔ صرف لزبن کے مظاہروں میں پچاس ہزار افراد شریک ہوئے۔
دوسری جانب روسی وزیر اعظم ولادمیر پوتن نے کہا ہے کہ مغربی ممالک مظاہرین کے مطالبات پورے نہیں کر رہی ہیں۔
باوجود اس کے کہ یورپی ممالک کے رہنماؤں اور یورپی کمیشن اور یورپی یونین کے صدور نے مظاہرین کی بے چینی کو جائز قرار دیا ہے، مبصرین کے مطابق یورپی ممالک کی حکومتیں مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بچتی پروگراموں پر عمل پیرا رہیں گی، جس کے باعث ان ممالک کی عوام میں مزید بے چینی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق