ملازمت چاہیے تو بتاؤ کام کیا کر سکتے ہو؟
29 فروری 2016برلن کی ایک عمارت کے باہر تارکین وطن کا رش اس قدر زیادہ تھا کہ پیدل چلنے والوں کو راستہ فراہم کرنے کے لیے بھی پولیس کو کام کرنا پڑا۔ ان بیتاب لوگوں کو چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اندر جانے دیا جا رہا تھا۔ یہ لوگ کسی فلمی ستارے کو دیکھنے کے لیے جمع نہیں تھے، بلکہ دفتر روزگار میں نوکری کی تلاش میں پہچنے تھے۔
جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن کی صورت حال
پاکستانی مہاجرین وطن واپس جانے کے لیے بے تاب
برلن کی روزگار کی ایجنسی سے وابستہ آندرے ہانشکے کا کہنا تھا کہ برلن میں منعقد ہونے والی یہ ’جاب فیئر‘ یا ملازمتوں کے حصول کے لیے نمائش، جرمنی میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی نمائش ہےجو خاص طور پر صرف پناہ گزینوں کے لیے لگائی گئی ہے۔
اب تک یہاں چار ہزار سے زائد تارکین روزگار حاصل کرنے کی خواہش میں رجسٹریش کروا چکے ہیں۔ انتظامیہ کا خیال ہے کہ آئندہ دنوں میں ہزاروں مزید افراد بھی نوکری ملنے کی امید میں جاب فیئر کا رخ کریں گے۔ اب تک جن پناہ گزین یہاں رجسٹریشن کے لیے آ چکے ہیں، ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق شام، عراق، افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک سے ہے۔
اس مارکیٹ میں مختلف کمپنیوں اور تعلیمی اداروں کی جانب سے 211 اسٹال لگائے گئے ہیں جہاں مہاجرین کو بنیادی ضروری معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ تارکین وطن یہاں ملازمت حاصل کرنے کے لیے رابطے قائم کر سکتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں بائر اور واٹن فال جیسی بڑی کمپنیوں کے علاوہ کئی علاقائی صنعتوں نے بھی حصہ لیا۔ اس دوران کُل ایک ہزار سے زائد نوکریوں کے لیے درخواستیں موصول کی گئیں۔
اس دوران تارکین وطن کو موقع پر ہی ملازمتیں فراہم نہیں کی گئیں بلکہ اس مارکیٹ کا مقصد یہ ہے کہ ملازمت کے متلاشی افراد کو کمپنیوں اور نوکریوں کے ساتھ ساتھ درکار قابلیت کے بارے میں بھی معلومات مہیا کی جا سکیں۔
ووڈا فون کے اسٹال پر موجود لیسانے لاؤئر کا کہنا تھا کہ لوگوں نے ان کی کمپنی میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے بہت دلچسپی کا اظہار کیا۔ لاؤئر ان سے ایک ہی سوال پوچھتی تھیں، ’’ملازمت چاہیے تو بتائیے آپ کیا کام کر سکتے ہیں؟‘‘
لاؤئر نے درجن بھر درخواستیں جمع کر رکھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان درخواستوں کا جائزہ لینے کے بعد انہیں دو ہفتوں کے اندر اندر بتا دیا جائے گا کہ آیا انہیں نوکری مل سکتی ہے یا نہیں۔
عادل ادریس بھی ان درخواست دہندگان میں شامل ہے۔ انتالیس سالہ ادریس کا کہنا ہے کہ وہ ویڈیو آرٹسٹ ہے۔ جرمنی میں اسے مستقل کام کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن اسے پھر بھی امید ہے کہ ووڈا فون میں اسے سافت ویئر ڈیویلپمنٹ کے شعبے میں عارضی کام یا انٹرنشپ مل جائے گی۔
تیس سالہ شامی شہری بلال ناصر بھی اس سے قبل تعلیم حاصل کرنے کے لیے کئی آن لائن درخواستیں دے چکا تھا لیکن ہر بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس نمائش کے دوران اسے براہ راست یونیورسٹیوں کے نمائندوں سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اب وہ جانتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسے مزید کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔
اس نمائش کے دوران بھی ایک بات سب سے نمایاں دکھائی دی، وہ یہ ہے کہ جرمنی میں ملازمت کے حصول کے لیے جرمن زبان سے واقفیت ناگزیر ہے، اگرچہ کچھ فنی شعبوں میں انگریزی زبان سے بھی کام چل جاتا ہے۔
جرمن وفاقی ریاست برلن کی میئر فرانزسکا گیفی کا کہنا تھا کہ اب وقت باتیں کرنے کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی میں مہاجرین کا بحران دوسرے حصے میں جا چکا ہے جہاں سماجی انضمام کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔