ممبئی: بدنظمی، امارت، غربت اور مواقع کا امتزاج
27 جون 2011کچھ برس قبل تک اس شہر کا نام بمبئی تھا۔ 18 ملین آبادی والے بھارت کے اس مغربی شہر میں جو کچھ بھی ہے یا ہوتا ہے، وہ لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ ممبئی کے ٹائم آؤٹ میگزین میں کام کرنے والی ایک خاتوں نرگس سونا والا کہتی ہیں:’’ مجھے بمبے سے محبت ہے، مجھے اس شہر سے محبت ہے۔ میں خود کو اس سے جڑا محسوس کرتی ہوں۔ تمام تر پریشانی اور گڑ بڑ میرے لیے اہم ہے۔‘‘ نرگس سوناوالا ممبئی سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہتی ہیں:’’میں یہاں خود کو بہت پر سکون اور محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ میں کہیں بھی اور نہیں رہ سکتی۔‘‘
ممبئی کے اکثر باسیوں کا اپنے شہر کے بارے میں خیالات اور رویہ سونا والا کی طرح ہی ہے۔ تاہم اس شہر میں تیزی سے بڑھتی آبادی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل یہاں کے رہائشیوں میں بعض اوقات اس شہر سے نفرت کا جذبہ پیدا کرتے بھی ہیں، تو یہ احساس دیر تک قائم نہیں رہتا اور وہ پھر اس کے گُن گاتے ملتے ہیں۔
’میں اپنے شہر کو پسند نہیں کرتا‘، جیری پِنٹو اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ پنٹو 2003ء میں چپھنے والی کتاب ’بمبے میری جان‘ کے معاون مصنف ہیں۔ اس کتاب میں بھارت کے اقتصادی اور انٹرٹینمنٹ کیپٹل ممبئی کے بارے میں منتخب تحریریں شامل ہیں۔ جیری پِنٹو کہتے ہیں:’’ یہ ایک بُری شادی کی طرح ہے، مگر میں کہیں اور رہ بھی نہیں سکتا۔‘‘
پِنٹو کہتے ہیں کہ جب آپ یہ جاننا چاہیں کہ آخر لوگ ممبئی کا رخ کیوں کرتے ہیں، تو پھر آپ کو صورتحال کو درست طور پر سمجھنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اکثر کسی بھی شہر کے بارے میں صرف دو انتہاؤں کا سوچتے ہیں یعنی اچھا یا برا:’’اس حوالے سے ممبئی ایک بُرا شہر ہے، ایک ایسا شہر، جہاں مسائل زیادہ ہیں۔ اگر ایک مغربی سیاح یہاں آتا ہے، تو اسے ٹریفک جام کے سبب گاڑی کے ذریعے محض تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں دو گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ اگر آپ ممبئی کو معیارات کے حوالے سے جانچنے لگیں، تو پھر شاید کوئی بے وقوف ہی اس شہر کا رخ کرے۔‘‘
لیکن اس کے باوجود بھی لوگ ممبئی کا رخ ضرور کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو معاشی ضروریات یہاں لے آتی ہیں جبکہ کچھ کو ایک بڑے شہر کی زندگی اور اس کا رنگا رنگ ثقافتی تنوع یہاں کھینچ لاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے نوجوانوں کے لیے یہاں موجود بالی وڈ صنعت بھی کشش کا باعث ہے اور وہ قسمت آزمائی کے لیے اس کا رخ کرتے ہیں۔
سفر کے حوالے سے ایک ویب سائٹ سی این این گو ڈاٹ کام کی سٹی ایڈیٹر سیتا ودھوانی کے بقول ممبئی میں قسم قسم کے لوگوں کا مجموعہ، جو اپنی اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں، اس شہر کو بھارت میں ایک نمایاں مقام بخشتا ہے۔ ودھوانی کے بقول یہاں کوئی بھی فرد معاشرتی دباؤ سے آزاد ہوکر زندگی گزار سکتا ہے اور اپنی تمام تر توجہ اپنے کیریئر اور زندگی بہتر بنانے پر مرکوز کر سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ چیز خواتین کے لیے بہت کشش کا باعث ہے۔
بھارتی دارلحکومت نئی دہلی، جرمنی اور کینیڈا سے تعلیم حاصل کرنے والی سیتا ودھوانی ممبئی کو اس لیے بھی بہتر قرار دیتی ہیں کہ نئی دہلی کے برعکس، جہاں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے، خواتین ممبئی میں خود کو زیادہ محفوظ اور آزاد محسوس کرتی ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی