ممنون حسین: پاکستان کے بارہویں صدر
30 جولائی 2013ان کے مد مقابل حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار جسٹس (ر) وجیہ الدین نے 77 ووٹ حاصل کیے۔
الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ صبح دس بجے سے سہ پہر تین بجے تک جاری رہی۔ صدر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیا گیا۔
قومی پارلیمان میں پولنگ کےلیے اجلاس کی صدارت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں متعلقہ صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے کی۔
غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ممنون حسین نے 277، پنجاب اسمبلی سے 313، سندھ اسمبلی سے25،بلوچستان سے 55 اور کے پی کے اسمبلی سے 22 ووٹ حاصل کیے۔
وجیہ الدین نے صرف خیبر پختونخواہ اسمبلی میں ممنون حسین پر اکثریت حاصل کی، جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔
اپوزیشن کا بائیکاٹ
منگل کے روز پولنگ کے موقع پر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اورمسلم لیگ (ق) نے انتخابات کی تاریخ کی تبدیلی کے معاملے پر اس صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔
ان جماعتوں کی قیادت نے الیکشن کمشن اور سپریم کورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اے این پی کے سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ ممنون حسین منتخب ہونے کے بعد بھی متنازعہ صدر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے عدالت اور الیکشن کمیشن سے اپنی مرضی کے فیصلے لیے، جس پر ان دونوں اداروں کے سربراہان کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔
زاہد خان نے کہا:’’وہ ایسا فیصلہ دیتے ہیں کہ جس سے پورے ماحول یا جمہوریت پر منفی اثر پڑتا ہے تو وہ تنقید کا نشانہ بنیں گے اور میرے خیال میں الیکشن کمشنر کو فوراً استعفٰی دے دینا چاہیے کیونکہ وہ متنازعہ ہو چکے ہیں۔ اور چیف جسٹس نے جو فیصلہ دیا ہے، ہم نے ان سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اب استعفٰی دے دیں"۔
مسلم لیگ(ن)اور ایم کیوایم اتحاد
اپوزیشن جماعتوں نے صدارتی انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ایم کیو ایم کےساتھ اتحاد کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
تاہم مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ نے صدارتی انتخابات میں کامیابی کو جمہوری قوتوں کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے جمہوریت کے فروغ کے لیے ایم کیو ایم کےساتھ اتحاد کیا۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "پہلے لوٹ مار کے لیے مل کر حکومت میں بیٹھے رہے اور اب لوٹے ہوئے مال کو بچانے کے لیے واویلا کر کے عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو بدنام کر رہے ہیں"۔
صدر آصف علی زرداری کی واپسی
دریں اثناء پاکستان کے موجودہ صدر آصف علی زرداری بیرون ملک نجی دورے سے گزشتہ رات وطن واپس پہنچ گئے۔ ان کی واپسی سے وہ افواہیں دم توڑ گئی ہیں، جن کے مطابق شاید صدر زرداری اب بیرون ملک ہی قیام کریں گے۔ صدر آصف زرداری کی پانچ سالہ مدت آٹھ ستمبر کو پوری ہو رہی ہے۔ وہ اپنی اہلیہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ستمبر دو ہزار آٹھ میں ملکی صدر بنے تھے۔ انہیں پانچ سالہ دور میں سخت نوعیت کے ذاتی، سیاسی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا رہا اور ان کی شخصیت خاصی متنازعہ بھی رہی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مختلف مشکلات کے باوجود صدر زرداری ملکی تاریخ کے طاقتور ترین حکمران رہے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد کا کہنا ہے:"ان پانچ سالوں میں کافی نشیب و فراز آئے، اس کے باوجود انہوں نے حالات کو بڑی ہوشیاری سے نمٹایا یعنی بڑے بڑے بحرانوں کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ پارلیمانی نظام میں سارے اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں لیکن آصف علی زرداری نے وزیر اعظم کے اختیارات بھی استعمال کیے، صدر کے اختیارات بھی استعمال کیے۔ جس طرح آصف زرداری نے صدارت کا دور گزارا، اب آنے والے صدر نمائشی ہوں گے، جیسے فضل الٰہی چوہدری یا رفیق تارڑ تھے"۔
دریں اثناء نومنتخب صدر ممنون حسین نے مسلم لیگ (ن) کی بنیادی رکنیت سے استعفٰی دے دیا ہے۔ وہ منتخب ہونے سے پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ وہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر صدارت کا عہدہ سنبھالیں گے۔ تاہم تجزیہ کا روں کا کہنا ہے کہ ان کا یہ اقدام نمائشی ہے، اصل میں وہ مسلم لیگ کے سربراہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے وفادار اور قریبی ساتھی ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ صدر بنائے جانے پر میاں برادران کے انتہائی "ممنون" بھی ہیں۔