مندر کی حفاظت میں ناکامی، ایک درجن پولیس اہلکار برخاست
14 جنوری 2021کم از کم بارہ پولیس افسران کو نوکری سے برخاست کرنے کا فیصلہ پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے کیا ہے۔ اسی صوبے کے ایک مقام کرک میں ہندو اقلیت کے ایک قدیمی مندر کو قریب دو ہفتے قبل مقامی انتہا پسند مسلمانوں کے ہجوم نے حملہ کر کے جلا ڈالا تھا۔کرک مندر حملے کی مختلف حلقوں کی طرف سے مذمت
اس واقعے نے پاکستان کی ہندو اقلیتی آبادی کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتوں کو بھی خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ جلایا گیا مندر تاریخی اور ایک ہندو سینٹ سے منسوب ہے۔ اس مندر کی زیارت کے لیے ملک بھر سے ہندو عقیدت مند آیا کرتے تھے۔
مندر جلانے کی تحقیات
دو ہزار کے قریب مشتعل افراد نے بدھ 30 دسمبر کو کرک میں واقع ایک پرانے مندر میں نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ اسے آگ بھی لگا دی۔ اس واقعے کی صوبائی حکومت نے باضابطہ محکمانہ تفتیش مکمل کی۔ اس تفتیش کے بعد مرتب کی گئی رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ مندر کی حفاظت پر مامور پچاس سے زائد پولیس اہلکاروں نے مشتعل ہجوم کے پہنچنے پر کوئی مزاحمت یا انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
تفتیشی افسر نے پولیس کے اس رویے کو بزدلی کا نتیجہ قرار دینے کے علاوہ کہا کہ ان کی جانب سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا اور غفلت برتی گئی۔ اسی رپورٹ میں تمام موجود اور ملوث اہلکاروں کے خلاف محکمانہ انضباطی کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔
انتہاپسندی، ماضی کی مہربانیوں کا ہے یہ فیض
انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد
خیبر پختونخوا کی پولیس کی تادیبی کارروائی کے تحت تفتیشی و انکوائری رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے ایک درجن پولیس افسران کو ملازمت سے فارغ کر دیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل کرنے کا اعلان صوبائی پولیس کے سربراہ ثنا اللہ عباسی نے کیا۔ عباسی نے مزید بتایا کہ رپورٹ کے مطابق کم از کم تینتیس افراد کو ایک سال کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے بھی مندر جلانے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے مناسب کارروائی کا حکم دیا تھا۔
ملوث افراد کی گرفتاریاں
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کی پولیس کے سربراہ ثنا اللہ عباسی نے یہ بھی بتایا کہ کرک کے قریب مندر کو جلانے کے واقعے میں تیس سے زائد مقامی مذہبی علما کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ان کے علاوہ ویڈیوز فوٹیج سے بھی دھاوا بولنے والوں کی شناخت کر کے گرفتاریاں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ گرفتار کیے جانے والوں میں جو مذہبی لیڈران ہیں، ان کا تعلق مبینہ طور پر اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی جماعت سے جمیعت علمائے اسلام سے بتایا گیا ہے۔
جس مندر پر حملہ کیا گیا تھا وہ سن 1919 سے پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی دوبارہ تعمیر سن 2015 میں ملکی عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر کی گئی تھی۔
ع ح، ع ا (ڈی پی اے)