1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مندر کی حفاظت میں ناکامی، ایک درجن پولیس اہلکار برخاست

14 جنوری 2021

پاکستان کی ایک صوبائی حکومت نے کم از کم ایک درجن پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے فارغ کر دیا ہے۔ یہ اہلکار کرک کے مقام پر ہندوؤں کے مندر کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/3nuZC
Pakistan | Hindu Tempel in Brand gesteckt
تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

کم از کم بارہ پولیس افسران کو نوکری سے برخاست کرنے کا فیصلہ پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے کیا ہے۔ اسی صوبے کے ایک مقام کرک میں ہندو اقلیت کے ایک قدیمی مندر کو قریب دو ہفتے قبل مقامی انتہا پسند مسلمانوں کے ہجوم نے حملہ کر کے جلا ڈالا تھا۔کرک مندر حملے کی مختلف حلقوں کی طرف سے مذمت

اس واقعے نے پاکستان کی ہندو اقلیتی آبادی کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتوں کو بھی خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ جلایا گیا مندر تاریخی اور ایک ہندو سینٹ سے منسوب ہے۔ اس مندر کی زیارت  کے لیے ملک بھر سے ہندو عقیدت مند آیا کرتے تھے۔

Pakistan Angriff auf Hindu-Tempel
جلے ہوئے مندر میں پولیس اہلکار ملبے کو دیکھتے ہوئےتصویر: Zubair Khan/AP/dpa/picture alliance

مندر جلانے کی تحقیات

دو ہزار کے قریب مشتعل افراد نے بدھ 30 دسمبر کو کرک میں واقع ایک پرانے مندر میں نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ اسے آگ بھی لگا دی۔ اس واقعے کی صوبائی حکومت نے باضابطہ محکمانہ تفتیش مکمل کی۔ اس تفتیش کے بعد مرتب کی گئی رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ مندر کی حفاظت پر مامور پچاس سے زائد پولیس اہلکاروں نے مشتعل ہجوم کے پہنچنے پر کوئی مزاحمت یا انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

تفتیشی افسر نے پولیس کے اس رویے کو بزدلی کا نتیجہ قرار دینے کے علاوہ کہا کہ ان کی جانب سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا اور غفلت برتی گئی۔ اسی رپورٹ میں تمام موجود اور ملوث اہلکاروں کے خلاف محکمانہ انضباطی کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔

انتہاپسندی، ماضی کی مہربانیوں کا ہے یہ فیض

انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد

خیبر پختونخوا کی پولیس کی تادیبی کارروائی کے تحت تفتیشی و انکوائری رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے ایک درجن پولیس افسران کو ملازمت سے فارغ کر دیا  ہے۔ اس فیصلے پر عمل کرنے کا اعلان صوبائی پولیس کے سربراہ ثنا اللہ عباسی نے کیا۔ عباسی نے مزید بتایا کہ رپورٹ کے مطابق کم از کم تینتیس افراد کو ایک سال کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے بھی مندر جلانے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے مناسب کارروائی کا حکم دیا تھا۔

Pakistan I Hindu Tempel in Karak
مشتعل ہجوم کے دھاوا بولنے سے قبل کرک کے مندر کا اندرونی منظرتصویر: Rohit Kumar

ملوث افراد کی گرفتاریاں

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کی پولیس کے سربراہ ثنا اللہ عباسی نے یہ بھی بتایا کہ کرک کے قریب مندر کو جلانے کے واقعے میں تیس سے زائد مقامی مذہبی علما کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ان کے علاوہ ویڈیوز فوٹیج سے بھی دھاوا بولنے والوں کی شناخت کر کے گرفتاریاں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ گرفتار کیے جانے والوں میں جو مذہبی لیڈران ہیں، ان کا  تعلق مبینہ طور پر اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی جماعت سے جمیعت علمائے اسلام سے بتایا گیا ہے۔

جس مندر پر حملہ کیا گیا تھا وہ سن 1919 سے پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی دوبارہ تعمیر سن 2015 میں ملکی عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر کی گئی تھی۔

’ضلع کرک میں ہندو عبادت گاہ پر حملہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے‘

ع ح، ع ا (ڈی پی اے)