مودی حکومت تبدیلیوں کی خواہاں تاہم لائق سیاستدانوں کا فقدان
30 دسمبر 2015
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر اپنی پارٹی کے مستقبل کو بہتر اور مضبوط بنانے کے لیے غیر معمولی دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاہم مودی کو ایک طرف تو با صلاحیت اور لائق سیاستدانوں کے فقدان کا سامنا ہے دوسری جانب دو سال قبل جن وعدوں کے سہارے وہ اقتدار میں آئے تھے انہیں پورا نہ ہوتے دیکھنے والے عوام میں مایوسی بہت زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ دو سال قبل نریندر مودی ایک بڑی کامیابی کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم منتخب ہوئے اور انہوں نے عوام کو روز گار فراہم کرنے اور ملک کو تیزی سے ترقی کی طرف گامزن کرنے جیسے خوبصورت وعدے کیے تاہم دو سال کے اندر اندر عوام میں پائی جانے والی امید کی کرن مدھم پڑ گئی ہے۔ مودی کا سرمایہ کاری کے شعبے میں اصلاحات کا پودا بھی مُرجھا گیا اور اُن کی حکومت کے دو سال بعد بھی بھارتی معیشت ڈگمگاتی دکھائی دے رہی ہے۔
نریندر مودی اپنی کابینہ میں رد و بدل کے متمنی تو ہیں تاہم اُن کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایسے موزوں اور لائق امیدواروں کا چناؤ بنا ہوا ہے جو ملک میں تیز رفتار اصلاحات اور موثر پالیسیوں کو رائج کر سکیں۔
خوش اخلاق اور واضح سوچ کے حامل وزیر مالیات آرون جیٹلی کو دفاعی امور کی وزارت کی ذمہ داری سونپنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم کردار ہے جو بھارتی صنعت کے فروغ کے لیے مودی حکومت کی جغرافیائی اور سیاسی عزائم اور منصوبہ بندی کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مودی کے قریبی ذرائع کے مطابق جیٹلی کو وزیر دفاع بنانے کا سوچا تو جا رہا ہے تاہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ جیٹلی کی جگہ وزارت مالیات کون سنبھالے گا۔
وزیر مالیات آرون جیٹلی کے دفتر کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ انہیں کسی قسم کی تبدیلی کے امکانات کا علم نہیں ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اپنے ہم فیصلوں کو ہمیشہ آخری وقت تک اپنی حد تک رکھتے ہیں۔ اُن کے قریبی حلقوں میں یہی کہا جاتا ہے کہ حتمی فیصلہ مودی کے پاس ہی ہے اور وہ اسے آخری وقت میں ہی منظر عام پر لائیں گے نیز یہ کہ مودی ابھی کابینہ میں تبدیلی کے بارے میں مزید غور و خوض کر رہے ہیں اور اب تک کچھ بھی یقینی نہیں ہے۔
مودی کے ایک اور قریبی ساتھی نے ان تبدیلیوں کو محض قیاس آرائیاں اور بے بنیاد افواہ قرار دیا ہے۔
مودی حکومت کی لائق اور مستعد سیاستدانوں کی تلاش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کی ہندو قوم پرست انتظامیہ کی سوچ اور رویہ بنی ہوئی ہے۔ یہ انتظامیہ کسی دوسری سوچ یا نظریے کے حامل سیاستدان، جیسے کہ لبرل یا اعتدال پسند یا بائیں بازو کے حامی سیاستدانوں سے وابستہ افراد کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر کبھی رضامند نہیں ہوئی نہ ہی اس کے مستقبل میں امکانات نظر آتے ہیں۔
دوسری جانب عشروں پر محیط معتدل کانگریس پارٹی کے دور میں دائیں بازو کے دانشور اُبھر کر سامنے نہیں آ سکے ہیں جبکہ کانگریس پارٹی ہی کے دور میں لبرل اداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
بی جے پی کے نائب صدر ونے سا ہسر ُبدھے کے بقول،’’ کانگریس کے مقابلے میں ہمارا ٹیلنٹ پول بہت چھوٹا ہے تاہم یہ محض جُز وقتی ہے، ہم جلد اپنی بنیادوں کو مضبوط اور وسیع تر بنا لیں گے‘‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نریندر مودی اپنی حکومتی مشینری کی ٹیوننگ پر توجہ دے رہے ہیں اور وہ ایک واضح اشارہ دے چُکے ہیں کہ سیاسی نا اہلی پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔