مودی دوبارہ برسر اقتدار، مبارک بادیں اور تشویش
23 مئی 2019جمعرات 23 مئی کی شا م چھ بجے تک آنے والے نتائج اور ووٹوں کے رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کو 350 سیٹیں مل رہی ہیں جب کہ اپوزیشن کانگریس اور اسکی حلیف جماعتوں کو 89 سیٹیں۔ دیگر جماعتوں کو 103سیٹیں ملیں گی۔ 542 نشستوں والے بھارتی پارلیمان میں حکومت سازی کے لیے 274سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
وزیراعظم مودی کی مقبولیت پر سوار بی جے پی نے نہ صرف غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے بلکہ کئی صوبوں میں اپنی پوزیشن بھی مضبوط کرلی ہے۔ دوسری طرف ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس 2009 کے انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کی حالت میں نہیں لگ رہی۔
مودی کی مقبولیت اور بی جے پی کے صدر امت شاہ کی تنظیمی مہارت کی مدد سے بی جے پی پہلی بار لوک سبھا میں 300 کا عدد چھو رہی ہے اور مسلسل دوسری مرتبہ مرکز میں اس کی اکثریت والی حکومت بنے گی۔ 1971 کے بعد یہ دوسرا موقع ہوگا جب کسی وزیراعظم کی قیادت میں ان کی پارٹی مسلسل دوسری مرتبہ اکثریتی حکومت بنانے والی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے بی جے پی کی شاندار کامیابی کواپنی حکومت کے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ پالیسی پر عوام کا اعتما د قرار دیا۔ انہوں نے ٹوئیٹ کیا ’’سب کا ساتھ + سب کا وکاس = ہندستان کی جیت‘‘۔ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے بھی کہا کہ انتخابات کے یہ نتائج اپوزیشن کے جھوٹ، ذاتی حملوں اور بے بنیاد سیاست کے خلاف عوام کا فیصلہ ہے۔ مسٹر شاہ نے ٹوئیٹ میں لکھا، ”یہ جیت پورے بھارت کی جیت ہے۔ ملک کے نوجوان، غریب اور کسان کی امیدوں کی جیت ہے۔ یہ شاندار جیت وزیراعظم مسٹر مودی کی پانچ برس کی ترقی اور مضبوط قیادت پر عوام کے اعتماد کی جیت ہے۔"
کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے شکست کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا، ”وہ اس کے لیے صد فیصد ذمہ دار ہیں۔ لیکن کارکنوں کو اس شکست سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ الیکشن میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے۔ ہماری لڑائی نظریات کی ہے اور و ہ اپنی اس لڑائی کو جاری رکھیں گے۔“
راہول گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو عام انتخابات میں زبردست کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا، ”ملک کے عوام نے واضح فیصلہ دیا ہے۔ مسٹر مودی کو اقتدار سونپا ہے۔ یہ ملک کے عوام کا فیصلہ ہے اور میں اسے کوئی رنگ نہیں دینا چاہتا۔"
راہول گاندھی نے اترپردیش کی امیٹھی سیٹ پر بھی اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے بی جے پی کی امیدوار اور وفاقی وزیر اسمرتی ایرانی کو کامیابی کی مبارک باد دی۔1967کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب امیٹھی سے کانگریس کا کوئی امیدوار شکست سے دوچار ہوا ہے۔ راہول گاندھی امیٹھی کے علاوہ وائناڈ سے بھی امیدوار تھے جہاں وہ اپنے حریف سے آٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے آگے ہیں۔
عالمی رہنماؤں کی مبارک باد
پاکستان، چین، جاپان، روس، اسرائیل، سری لنکا، بھوٹان اور افغانستان سمیت متعدد ملکوں کے سربراہوں نے اس شاندار کامیابی پر وزیر اعظم نریندر مودی کو مبارک باد دی ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو مبارکباد دیتے ہوئے خطے میں امن و خوشحالی کے لیے ان کے ساتھ کام کرنے کی امید ظاہر کی ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے مسٹر مودی کو فون کر کے مبارک باد دی اور مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ جاپان کے وزیراعظم شینزو آبے نے بھی مودی کو فون کیا اور کامیابی حاصل کرنے پر مبارک باد دی۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت ملنے پر انہیں مبارک باد دی اور سنہرے مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے انتہائی انوکھے انداز میں ہندی میں ٹوئیٹ کر کے مسٹر مودی کو مبارک باد دی۔ انھوں نے لکھا، ”میرے دوست نریندر مودی آپ کی شاندار انتخابی جیت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد۔ یہ انتخابی نتائج ایک بار پھر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آپ کی قیادت کو ثابت کرتے ہیں۔ ہم ساتھ مل کر ہندوستان اور اسرائیل کے مابین گہری دوستی کو مضبوطی فراہم کرنا جاری رکھیں گے۔ بہت خوب، میرے دوست۔“
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی وزیراعظم کو مبارک باد دیتے ہوئے ٹوئیٹ کیا، ”جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون، امن وخوشحالی کے لیے دونوں ملکوں کے مابین قریبی تعاون مستحکم ہونے کی امید ہے۔"
بالی ووڈ کی مبارک باد
وزیر اعظم نریندر مودی کو اس شاندار کامیابی پر بالی وڈ میں انھیں مبارکباد دینے کی دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ مشہور گلوکارہ آشا بھوسلے، اداکار وویک اوبرائے، انوپم کھیر، شیکھر سمن سمیت کئی دیگر فلمی ہستیوں نے انھیں مبارکباد دی ہے۔ آشا بھوسلے نے ٹوئیٹ کیا، ’’بھارتی رائے دہندگان نے سمجھ بوجھ کر حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی، قومی جمہوری اتحاد اور بی جے پی کے کارکنان کو ان کی سخت محنت کے لیے مبارکباد۔ ان کی محنت کی وجہ سے لمبے انتظار کے بعد ملک عہد زریں میں داخل ہوا ہے۔ جے ہند۔‘‘
سول سوسائٹی کی تشویش
دریں اثنا قوم پرست جماعت بی جے پی کے اقتدار میں واپس آنے پر سول سوسائٹی اور حقوق انسانی کے کارکنوں نے تشویش کا اظہارکیا ہے۔ حقوق انسانی کے کارکن اور انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس کے سابق افسر ہرش مندر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”مودی کی یہ کامیابی اس بات کی علامت ہے کہ ہندووں کی واضح اکثریت نے ہندو قوم پرست جماعت اور بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے ہندوؤں کے بالاتری کے نظریہ کو تسلیم کرلیا ہے۔ یہ بھارتی آئین کے سیکولر اور انسانی قدروں کوترک کرنے اور اس کی جگہ پر ایک پرتشدد اور اندھی اکثریتی ہندو قوم پرستی کی آمدکا اشارہ بھی ہے۔"
گجرات فسادات کے بعد اس وقت نریندر مودی کی ریاستی حکومت سے اختلافات کے نتیجے میں اپنے عہدے سے استعفی دے دینے والے ہرش مندر کا مزید کہنا تھا، ”بی جے پی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس کو اپنا ایجنڈا اور نظریہ نافذ کرنے کا پہلے سے زیادہ موقع مل جائے گا اور عام انتخابات کے ان نتائج سے سول سوسائٹی، میڈیا اور تعلیمی اداروں میں مودی اور آر ایس ایس کے نظریات سے اختلاف کرنے والے بائیں بازو، لبرل اور جمہوری آوازوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔"