موسم سرما میں افغان طالبان سے مذاکرات کا امکان
4 جون 2011گیٹس نے ایشیا پیسیفک کی سلامتی سے متعلق سنگاپور منعقدہ اجلاس میں یہ بات کہی ہے۔ امریکی وزیر نے البتہ ان مذاکرات کو طالبان مخالف عسکری کارروائیوں کی کامیابی سے مشروط کیا ہے۔ افغان دارالحکومت کابل سے ایسی بھی غیر مصدقہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ ان مذاکرات کے باقاعدہ آغاز کے لیے فریقین پہلے سے ہی رابطے میں ہیں اور ممکنہ طور پر مذاکرات کار رواں سال دسمبر میں جرمن شہر بون میں آمنے سامنے ہوں گے۔
رابرٹ گیٹس کے حالیہ بیان کو اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان مخالف کامیاب عسکری کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا، ملک کے اندر سلامتی کا حصار وسیع ہوا اور ایسے شواہد ملے کہ مخالفین کی صلاحیتیں محدود کر دی گئی ہیں، تو موسم سرما میں سیاسی مذاکرات کے آغاز کا امکان ہے۔ گیٹس کا کہنا تھا، ’’ واضح رہے کہ طالبان کو القاعدہ سے ناطہ توڑنا ہو گا، انہیں افغان آئین کے تحت ایسے معاشرے میں رہنا ہو گا، جہاں طاقت کے استعمال پر تمام اختیار حکومت کا ہو گا۔‘‘
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانیہ اور امریکہ کے سفارتکار اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں سے طالبان کے 18رہنماؤں کے نام خارج کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ امن مذاکرات کے لیے یہی نکتہ طالبان کی اولین شرائط میں سے ایک ہے۔ اس ضمن میں طالبان دور میں شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے تشکیل دی گئی فورس ’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کے سربراہ مولوی قلم الدین کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اس طالب کمانڈر پر ملک بھر میں شہریوں کو ہراساں کرنے کے الزامات ہیں۔
2014ء تک افغانستان کی داخلی سلامتی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کو سونپنے کے منصوبے کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادی رواں سال جولائی سے فوجی انخلاء کا سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔
رواں سال جہاں امریکی اور اتحادی افواج نے طالبان مخالف کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے وہیں عسکریت پسندوں نے بھی افغانستان کے قدرے پر امن شمالی اور مغربی علاقوں میں کارروائیاں کر کے اپنے نیٹ ورک کی وسعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے سے اب تک عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ تصور کیے جانے والے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں بھی مکمل طور پر امن بحال نہیں ہوسکا ہے۔
القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے بعد البتہ مغرب کی افغان جنگ میں دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ رائے عامہ کے اندازوں کے مطابق ایسی سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ اب افغانستان میں القاعدہ جیسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کی فعالیت نہایت ہی کم ہوگئی ہے لہذا اس کے خلاف زیادہ وسائل ضائع نہ کیے جائیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق