موسم سرما میں ’کے ٹُو‘ کی چوٹی سر کرنے کی کوشش ناکام
17 مارچ 2018پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ’آئس واریرز‘ نامی پولش کوہ پیماؤں کے گروپ نے مشکل موسمی حالات کے باعث کے ٹو کو سردی کے موسم میں سب سے پہلے سر کرنے کی مہم کے اختتام کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ قرا قرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع آٹھ ہزار چھ سو میٹر بلند چوٹی کے ٹو اس مرتبہ بھی موسمِ سرما میں عبور نہیں کی جاسکی۔
پولش گروپ میں شامل کوہ پیمائی کے ماہرین نے جمعے کے روز اسلام آباد پہنچ کر اپنی شکست کا اعلان کیا۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایوریسٹ کے مقابلے میں کے ٹو کو موسمِ سرما میں عبور کرنا زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
کے ٹو سر کرنے والی پہلی امریکی خاتون: ’وہ لمحہ باعث فخر تھا‘
پاکستان کے ’قاتل پہاڑ‘ پر دو غیرملکی کوہ پیما لاپتہ
دنیا کی چودہ بلند ترین پہاڑی چوٹیاں سر کرنے والا پہلا جوڑا
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پولش کوہ پیماؤں کی ٹیم نے بتایا کہ ان کی یہ مہنگی ترین مہم آغاز سے ہی صحیح اور واضح راستوں کا تعین نہیں کر سکی تھی۔ سرد موسم کے سبب گروپ میں ديگر معاملات پر بھی اتفاقِ رائے نہیں تھا۔ کوہ پیماؤں کی آئس واریئر ٹیم کے سربراہ کرجسٹوف ویےلسکی کا مزید کہنا تھا کہ وقت گزرتا گیا اور بالآخر مہم کو ختم کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
'وحشی پہاڑ' کے نام سے مشہور 'کے ٹو' کو دنیا کا مشکل ترین پہاڑ سمجھا جاتا ہے۔ کے ٹو کی اونچائی آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر ہے۔ تکنیکی اعتبار سے بھی کے ٹو پر کوہ پیمائی ایک مشکل عمل ہے۔ شمالی ہمالیہ کے اوپر ہوا کا دباؤ بہت تیز ہوتا ہے، جس کی وجہ سے طیاروں کو پرواز کرنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔
اڑسٹھ سالہ پولش کوہ پیما ویے لیسکی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’کے ٹو سب سے زیادہ مشکل ہے، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں، اور کے ٹو پر بدترین موسم ہوتا ہے۔‘ ویے لیسکی نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ،’چونکہ وہ آئس واریئرز ہیں تو وہ ضرور واپس آئیں گے۔ تاہم کے ٹو کو سر کرنے کے لیے دنیا کے بہترین کوہ پیماؤں کو بھی قسمت کا ساتھ چاہیے۔‘
پاک چین سرحد پر واقع اس پہاڑ کو سن 1954 میں پہلی مرتبہ سر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد صرف تین سو چھ کوہ پیما کے ٹو کو سر چکے ہیں۔ تاہم اس وحشی پہاڑ کو عبور کرنے کی کوشش میں اسی کوہ پیما اپنی جان گوا چکے ہیں۔