مولانا سمیع الحق کا قتل، کیا عدم استحکام بڑھ سکتا ہے؟
2 نومبر 2018بیاسی سالہ مولانا سمیع الحق جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے سربراہ تھے۔ انہیں بابائے افغان طالبان اور بابائے پاکستان طالبان بھی کہا جاتا تھا۔ وہ پاکستان کی ایوانِ بالا سینیٹ کے رکن بھی رہے، جب کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انہوں نے مذہبی تنظیموں کا ایک اتحاد بھی بنایا تھا، جس نے امریکی حملوں کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے کیے۔
سمیع الحق جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے اتحاد پاکستان ڈیفنس کونسل کے بھی معروف رہنما رہے ہیں۔ انہیں آمر صدر جنرل ضیاء الحق کے بھی قریب سمجھا جاتا تھا جب کہ عالمی جہادی حلقوں میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
وہ فخریہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ افغان طالبان کے کئی رہنما ان کے شاگرد رہے ہیں۔ مولانا کے قریب رہنے والے حافظ احتشام کا کہنا ہے کہ وہ جہادی رہنماؤں کے لیے روحانی باپ کی سی حیثیت رکھتے تھے، ’’ملا عمر اور جلال الدین حقانی کے علاوہ کالعدم تحریکِ طالبان کے بھی کئی رہنما ان کے شاگرد رہے اور پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کا بھی وہ حصہ تھے۔ وہ پاکستان کا سب سے بڑا مدرسہ چلا رہے تھے، جسے جامعہ حقانیہ کہا جاتا ہے۔‘‘
ان کے ہزاروں چاہنے والے اس قتل پر سوگ کی سی کیفیت میں ہیں لیکن کئی ناقدین کے خیال میں مولانا کی فکرو فلسفے نے پاکستان اور افغانستان کو نقصان پہنچایا۔ معروف انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری نے مولانا کی ہلاکت پر تاثرات دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’سب سے پہلے تو میں ان کے قتل کی بھر پور مذمت کرتی ہوں۔ کسی بھی شخص کا اس طرح قتل کیا جانا قابلِ مذمت ہے لیکن ہمیں یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولانا نے ساری زندگی ایسے لوگوں کی سر پرستی کی جن کو انسانی حقوق پر کوئی یقین نہیں تھا۔ وہ ایسی تنظیموں کے حامی رہے، جنہوں نے پاکستان اور افغانستان میں نہ صرف انتہا پسندی کو فروغ دیا بلکہ طاقت کے بل بوتے پر رجعتی پالیسیاں بھی نافذ کرنے کی کوشش کی، جس سے ان دونوں ممالک کو بہت نقصان پہنچا اور معاشرے میں مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تفریق بڑھی۔ ان کے قتل کے بعد ملک میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔‘‘
مولانا کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان پر امریکا کی طرف سے شدید دباؤ ہے کہ وہ افغان طالبان کو مذکرات کی میز پر لائیں۔ کئی ماہرین کے خیال میں مولانا سمیع الحق کی موت کے بعد یہ کام پاکستانی حکومت کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ ان کی موت سے افغان مذاکرات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے،’’مولانا سمیع الحق کو افغان طالبان کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا۔ پاکستانی حکام ان کی مدد سے افغان طالبان سے ماضی میں بھی رابطے کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے تھے۔ میرے خیال میں ان کا قتل اس مذاکراتی عمل کو متاثر کر سکتا ہے۔ اب پاکستان کے پاس ان کی قد وقامت کی کوئی شخصیت نہیں، جو افغان طالبان کو مذاکرات پر قائل کر سکے۔‘‘
ان کے خیال میں مولانا کے قتل کے بعد ان کے شاگردوں کو کنڑول کرنا مشکل ہوگا اور اگر حکومت نے احتیاط سے کام نہیں لیا تو کچھ عناصر ان کی موت کو بہانہ بنا کر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں۔
مولانا کے قتل کی تمام حلقے بھر پور مذمت کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان، صدر پاکستان ڈاکڑ عارف علوی، مولانا فضل الرحمن، احسن اقبال، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارسمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے اس قتل کی بھر پور مذمت کی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اس واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے جب کہ مولانا کے قتل کے بعد کئی حلقے اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔
مولانا سمیع الحق کے ملک کے طول و عرض پر ہزاروں کی تعداد میں مدرسے ہیں۔ اسلام آباد کی لال مسجد سمیت ملک کی کئی اہم مساجد میں ان سے عقیدت رکھنے والے علماء پیش امام کے طور پر متعین ہیں۔ ان کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں لال مسجد کے پاس ایک مظاہرہ شروع ہو چکا ہے۔ امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں اس طرح کے مظاہروں میں اضافہ ہو گا۔
کئی حلقے ایک محفوظ علاقے میں مولانا کے قتل کو ایک بہت بڑا واقعہ قرار دے رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت اس قتل سے جڑے سارے حقائق کو عوام تک پہنچائے۔