مولانا کے خلاف ’بغاوت‘، اپوزیشن کا قلعہ کتنا مضبوط؟
24 دسمبر 2020نواز شریف اور آصف زرداری مقدمات کے گرداب اور سمجھوتوں، مجبوریوں کے جال میں پھنسے ہوئے تھے۔ ہچکچاہٹ، فیصلہ سازی میں کمی، ماضی کی تلخیاں، ناراضگیاں اور باہمی عدم اعتماد بھی حکومت مخالف اتحاد کی تشکیل میں رکاوٹ بنا رہا۔ مفاہمتی اور مزاحمتی بیانیے کے مابین رسہ کشی سے تھک ہار کر، بالآخر نواز شریف اور آصف زرداری راضی ہو گئے اور حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم تشکیل پایا۔
مشکل فیصلہ تھا کیونکہ اس لڑائی میں انہوں نے ملک کی طاقتور ’اسٹیبلشمنٹ‘ کو فریق بنایا ہے۔
نواز شریف اور زرداری خود تحریک کے میدان سیاست میں ورچوئل موجودگی سے اور پس پردہ بڑے فیصلوں میں حصہ لے رہے ہیں، تاہم ان کے جانشین مریم اور بلاول اتحاد کا چہرہ نظر آتے ہیں اور مولانا اتحاد کے نگراں اور سربراہ۔
حکومت مخالف اتحاد کی تحریک جب حتمی مراحل میں داخل ہو رہی ہے تو اس کے سربراہ مولانا کو اپنی ہی جماعت کے پرانے ساتھیوں کی جانب سے 'بغاوت‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچستان سے مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد اور خیبر پختونخواہ سے مولانا گل نصیبب نے مولانا کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
یہ دونوں صوبے، جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں، ستر کی دہائی سے مولانا کی جے یو آئی کا سیاسی اور مذہبی گڑھ رہے ہیں۔ اور مولانا کے لیے بلوچستان اور خیبر پختوانخواہ میں اپنی گرفت مضبوط رکھنا ہمیشہ سے ہی اہم رہا ہے، کیونکہ اپنی اسی طاقت کی بنیاد پر وہ نہ صرف عالمی طاقتوں بشمول امریکا، چین، مسلم ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور خود پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سکیورٹی عدسوں کا محور رہے ہیں۔
مولانا پر جماعت میں موروثی سیاست، بادشاہت قائم کرنے اور نظریات سے انحراف جیسے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
ان شخصیات کی ’بغاوت‘ اور الزامات، مولانا کے لیے ایک ذہنی اور سیاسی الجھن تو کھڑی کر سکتے ہیں، حکومتی شخصیات کو مولانا پر سیاسی تیر چلانے کا موقع بھی مل سکتا ہے لیکن مولانا اور ان کی جماعت کے لیے سیاسی بحران پیدا کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ مولانا کی پارٹی پر گرفت بہت مضبوط ہے۔
مولانا شیرانی، حافظ حسین احمد اور ان رہنماؤں نے مولانا کی قیادت کو ماضی میں چیلنج کیا تھا لیکن بقول ذرائع مولانا نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے پارٹی انتخابات میں انہیں شکست دلوائی اور بتدریج سائیڈ لائن کیا۔
مولانا کے ساتھی اس 'بغاوت کو سازش‘ اور جماعتوں کی توڑ پھوڑ کی سیاسی تاریخ کے داغدار آئینے میں عکس تلاش کرتے نظر آرہے ہیں۔ جنرل ضیاء، جنرل مشرف کے ادوار ہوں یا موجودہ دور۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کی گئیں لیکن ناکام ہی رہیں۔ بینظیر بھٹو کے انکل کھر، جتوئی یا ممتاز بھٹو ہوں، سب سیاسی بدنامی اور گمنامی کا شکار ہی رہے ہیں۔ ان کی مثال بھی پرندوں کے غول سے جدا ہونے والے پرندے کی طرح ہوتی ہے۔
مولانا کے لیے پارٹی میں بغاوت سے کہیں زیادہ بڑا چیلنج اس وقت حکومت مخالف تحریک کی شدت کو قائم رکھنا ہے۔ جلسے جلوس، ’گو عمران گو‘ کے نعرے، تقریروں میں ان کے لیے ’سلیکٹڈ‘اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ’سلیکٹرز‘ کے القابات کے سیاسی منتر شاید زیادہ دنوں تک تحریک کو مزید نہ گرما سکیں۔ ماڈرن زمانے کی سیاست تقریروں، نعروں اور ترانوں میں جدت کی کشش چاہتی ہے اور تحریک کی شدت برقرار رکھنے کے لیے عملی اقدام کی طلب گار رہتی ہے۔
موسم سرما میں اپنے لیے موسم بہار کی تلاش میں مولانا، نواز شریف اور زرداری اب ایک سیاسی دوراہے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ سرد خشک ہواؤں میں اسلام آباد کی طرف سیاسی چڑھائی یا لانگ مارچ کرنا ہے۔ اگر دھرنا دیتے ہیں تو ماضی میں عمران خان، مولانا طاہر القادری کے خلاف اپنے ’جمہوری بھاشن‘ آڑے آئیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ظاہری سپورٹ کے باوجود وہ نواز شریف کی حکومت کو پھر بھی گرانے میں ناکام رہے تھے۔
نواز شریف اور زرداری اسی وجہ سے دھرنے کے خلاف رائے رکھتے ہیں، لانگ مارچ میں بڑی تعداد کے اکھٹے ہونے پر زور دے رہے ہیں ۔ مولانا انتہائی اقدام کے طور ہر دھرنے کی حمایت میں نظر آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
گوادر: سمندری ہواؤں پر کانٹوں کے پھندے
سینیٹ کا انتخاب سامنے ہے، عمران خان کی حکمراں جماعت ایوان بالا میں آسانی سے اکثریت حاصل کر سکتی ہے، مستقبل میں قانون سازی کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی اوراس طرح اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑے عمران خان کی طاقت میں اضافہ بھی۔
اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کا پہلا ہدف بھی سینیٹ کے انتخابات سے قبل سیاسی بحران پیدا کرنا ہے۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی 'پارٹنر شپ‘ میں دراڑ ڈالنا ہے، بیچ میں دیوار حائل کرنا ہے ورنہ وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والوں برسوں میں ان کی سیاست کو بند گلی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے گا۔
اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملہ پر بھی اختلاف ہے۔ نواز شریف اور مولانا اس آپشن کو سیاسی طوفان برپا کرنے کے لیے استعمال کے حق میں ہیں، مریم اسی وجہ سے اس بیانیے کو اپنی تقریروں کی پنچ لائنز کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ لیکن اس ہتھیار کو سیاسی جنگ میں 'ٹرمپ کارڈ‘ کی طرح استعمال کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کا راضی ہونا ضروری ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں میں اقتدار صرف پیپلز پارٹی کے پاس ہے یعنی سندھ حکومت اور وہ اسے بنا بارش برسانے والے بادلوں کی طرح ضائع نہیں کرنا چاہیے گی۔ وفاق میں اقتدار کی تبدیلی کو محسوس کیے بغیر، سینیٹ اور قومی اسمبلی سے استعفی ہی نہیں دینا چاہےگی۔ بینظیر بھٹو نے کئی مرتبہ مجھ سے انٹرویومیں ذکر کیا کہ جنرل ضیاء کے دور میں ان کی پارٹی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ ایک سیاسی غلطی تھی، ''انتخابات کا بائیکاٹ جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ اس سے سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے، جو غیر جمہوری عناصر کے ذریعے پر کروایا جاتا ہے اور آپ کو سیاسی عمل سے پرے دھکیلا جاتا ہے۔‘‘
جنرل مشرف کے دور میں جب پیپلز پارٹی کے نام سے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگائی گئی تو بینظیر نے جلا وطنی کے دوران مرحوم مخدوم امین فہیم کی سربراہی میں نئے نام سے پارٹی درج کروا کر 2002ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ حالانکہ علم تھا کہ جنرل مشرف کے دور کے حلالے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کرائی جا سکتی ہے۔
مجھے یاد ہے جب میں بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد نو ڈیرو تعزیت کے لیےگیا تو میرے سامنے زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کے فلسفے کی روشنی میں نواز شریف کو 2008ء کے انتخابات میں حصہ لینے کا مشورہ دیا ورنہ ن لیگ ان انتخابات کے بائیکاٹ کا ارادہ رکھتی تھی۔
اب بینظیر بھٹو کی برسی پر اپوزیشن رہنما گڑھی خدا بخش میں زرداری، بلاول، اور آصفہ کیساتھ موجود ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے اسمبلیوں سے استعفی نہ دینے کی صورت میں مولانا اور نواز شریف کی ن لیگ کے پاس حکومت مخالف تحریک کی شدت برقرار رکھنے اور اسٹیبلشمنٹ کو طاقتور پیغام دینے کے لیے لانگ مارچ میں ایک بہت بڑی تعداد اکٹھا کرنی ہو گی۔ پنجاب کے شہروں اور قصبوں کو اسلام آباد اور پنڈی سے ملانے والے جی ٹی روڈ پر بڑی تعداد میں 'اسٹیبلشمنٹ‘ مخالف بیانیے پر لوگوں کو اکٹھا کرنا بڑا امتحان ہو گا۔
ان دنوں 'سازشوں کے شہر اسلام آباد‘ کی سرد شاموں میں گرما گرم سیاسی بحث جاری ہے۔ اقتدار کی تبدیلی کی سازشی تھیوری فی الوقت دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ قیاس آرائی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے وہ حلقے، جن کی نظریں ن لیگ کے لاہور کے جلسے پر لگی ہوئی تھیں، جلسے کے بعد ان کی اضطراب زدہ سانسوں میں اب اطمینان جھلک رہا ہے۔ لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں سینیٹ کے انتخابی میدان کو خالی نہیں چھوڑیں گی۔
اگر سینیٹ کے انتخابات سے قبل اپوزیشن کوئی سیاسی بحران پیدا کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو مولانا کو اپنے سیاسی خوابوں کی تعبیر، نواز شریف کو اپنے سیاسی انتقام اور زرداری کو اسٹیبلشمنٹ سے قربت کے لیے شاید موسم سرما میں موسم بہار کی تلاش کے بجائے موسم گرما کا انتظار کرنا پڑے۔