1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موٹر وے گینگ ریپ: پیمرا کی طرف سے رپورٹنگ پر پابندی کی مذمت

3 اکتوبر 2020

پاکستانی حکام نے ایک موٹر وے پر ایک خاتون کے اس کے بچوں کے سامنے حالیہ گینگ ریپ کی رپورٹنگ پر پابندی لگا دی ہے۔ اس ریپ کی عالمی سطح پر سخت مذمت کی گئی تھی۔ اب رپورٹنگ پر پابندی کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3jNZO
پاکستان میں اس گینگ رپ کے خلاف خواتین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے تھےتصویر: DW/T. Shahzad

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ہفتہ تین اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس واقعے میں ایک خاتون کے ساتھ کی جانے والی اجتماعی جنسی زیادتی پر اس لیے بھی غیر معمولی غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس جرم کے ارتکاب کے بعد ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اس کا ذمے دار خود اس ظلم کا نشانہ بننے والی خاتون کو ہی قرار دے دیا تھا۔

پیمرا کی طرف سے پابندی کی وجہ

اس جرم کے حوالے سے ملک میں الیکٹرانک میڈیا کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اب تمام ملکی ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات کی طرف سے اس جرم کی رپورٹنگ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس رپورٹنگ کے حوالے سے پولیس نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ جس طرح میڈیا اس واقعے کی 'غیر ذمے دارانہ‘ رپورٹنگ کر رہا ہے، اس طرح اس جرم کے شواہد ضائع ہو سکتے ہیں۔

ایک جرم آدھے لمحے کا اور ’پاک سرزمین‘ جو ہلی تو مگر پھٹ نہ سکی

پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کے مضافات میں ایک موٹر وے پر اپنے بچوں کے ساتھ اپنی گاڑی میں رات کے وقت سفر کرنے والی اس خاتون کا گینگ ریپ گزشتہ ماہ کیا گیا تھا اور اس کے خلاف انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور حقوق نسواں کے لیے سرگرم گروپوں نے بہت بلند مذمتی آوازیں اٹھائی تھیں۔

Logo Pakistan Electronic Media Regulatory Authority PEMRA

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مطالبہ

اس جرم کے ارتکاب کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ مقامی پولیس کے اس اعلیٰ افسر کو برطرف کیا جائے، جس نے یہ کہا تھا کہ اس جرم کی ذمے دار خود متاثرہ خاتون بھی تھی، کیونکہ وہ اپنے کم عمر بچوں کے ساتھ رات کے وقت سفر کے لیے اکیلی گھر سے نکلی ہی کیوں تھی؟

جسم وزیراں کا لیکن مرضی ’غیرت مندوں‘ کی

اب تک پولیس اس جرم کی تفتیش کے دوران ایک مشتبہ ملزم کو گرفتار کر چکی ہے۔ دوسرا ملزم، جو اس جرم کا مبینہ طور پر مرکزی کردار ہے، ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اسی بات پر ملکی میڈیا میں شدید تنقید کی جا رہی تھی، جس کے بعد اب پیمرا نے اس کیس کی میڈیا رپورٹنگ پر ہی پابندی لگا دی ہے۔

صحافیوں کی ملکی تنظیم کا موقف

پیمرا کی طرف سے لگائی گئی اس پابندی پر پاکستانی صحافیوں کے وفاقی تنظیم پی ایف یو جے کے ایک مرکزی رہنما افضل بٹ نے کہا، ''قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ناکامی کے لیے میڈیا کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں اور اسی لیے پیمرا کی طرف سے لگائی جانے والی پابندی حکومتی سطح پر سنسرشپ کی سیاہ مثال ہے۔‘‘

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آٹھ سالہ بچی کا ریپ اور قتل

اسی طرح انسانی حقوق کے تحفط کے لیے فعال پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن (ایچ آر سی پی) نے بھی پیمرا کی طرف سے لگائی گئی پابندی کو 'لایعنی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے 'قربانی کے بکرے‘ تلاش نہ کرے۔

'اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش‘

پاکستان میں صحافیوں کی ملکی تنظیموں، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم غیر سرکاری اداروں اور وکلاء کی نمائندہ بار کونسلوں کے مطابق جب سے 2018ء میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اقتدار میں آئی ہے، تب سے حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے ایک باقاعدہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔

گینگ ریپ: مقدمہ درج نہ ہونے پر پاکستانی لڑکی کی خودسوزی

سول سوسائٹی کے نمائندہ ان گروپوں کے مطابق عمران خان کے دور اقتدار میں ملکی حکومت اور فوج پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو حملوں، مار پیٹ، ڈرانے دھمکانے اور انہیں آن لائن ہراساں کیے جاے کا سلسلہ جاری ہے۔

م م / ا ا (ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید