مہاجر کیمپوں میں سیلابی متاثرین کی عید کیسی؟
11 ستمبر 2010ٹیکنیکل کالج نوشہرہ میں سیلاب زدگان کے لئے لگائے گئے امدادی کیمپ میں اکثر لوگ اپنے گھروں سے باہر عید مناتے ہوئے رنجیدہ اور پریشان دکھائی دئے۔ عارضی کیمپوں میں موجود لوگوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اپنے گھر بہت یاد آ رہے ہیں جہاں کبھی سب مل کر عید کی خوشیاں منایا کرتے تھے۔
اس موقع پر شازیہ نامی ایک خاتون نے بتایا: ’’ہمارے پاس کپڑے ، جوتے نہیں ہیں، اس لئے ہم خفا ہیں۔ یہاں کچھ نہیں مل رہا۔ ہمارا گھر اللہ کرے بس جائے تو وہاں عید منائیں گے اور خوب مزے اڑائیں گے۔‘‘
عیدالفطر کے موقع پر کیمپ کے اندر ہی گھومتے پھرتے چند نوجوانوں نے شکایت کی کہ عید کے دن بھی کیمپ انتظامیہ کی جانب سے اچھا کھانا نصیب نہیں ہوا: ’’ آج ہمیں بہت برا لگ رہا ہے کیمپ میں ہمیں صرف چاول دئے جاتے ہیں جو کھا کھا کرہمارے پیٹ خراب ہو گئے ہیں۔‘‘
ایک غیر سرکاری امدادی تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے کارکن لال شیر کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بساط کے مطابق امدادی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں تاہم بقول ان کے وزیراعظم کی جانب سے سیلاب زدگان کے لئے اعلان کردہ فی کس عیدی کے پانچ ہزار روپے وصول ہوئے اور نہ ہی اب تک متاثرین کی بحالی کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نظر آ رہی ہے۔ ’’کسی بھی آدمی کو حکومت کی جانب سے ایک روپیہ بھی نہیں ملا اور لوگ اس امید پر بیٹھے ہیں کہ ہمیں پیسے ملیں گے۔‘‘
اس موقع پر موجود چند لوگو ں نے پولیس کے رویئے کی شکایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس کیمپ کا انتظام آرمی کے حوالے کیا جائے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا: ’’آرمی کے لوگ یہاں آ جائیں تو اچھا ہو گا۔ پولیس والے سارے آپس میں ملے ہوئے ہیں اور لوگوں کو کوئی ریلیف مہیا نہیں کیا جا رہا۔‘‘
امدادی کاموں میں مصروف ایک اور شخص فضل شیر کا کہنا تھا کہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے وہاں پہنچنے سے متاثرین کو کسی حد تک ریلیف ملا ہے: ’’ ہماری دنیا بھرکے لوگوں سے اپیل ہے کہ اگر وہ ان متاثرین کی امداد کے لیے رقم نہیں دے سکتے تو کم از کم ان کےدکھ درد میں تو شریک رہیں۔‘‘
رپورٹ: شکور رحیم ، نوشہرہ
ادارت: عصمت جبیں